بلاگ
Time 23 جولائی ، 2018

رکن پارلیمان یا کونسلر، حلقے کی ترقی کس کی ذمہ داری؟

ارکان پارلیمان کی ذمہ داریوں میں سڑکیں بنوانا، پارک اور کھیل کے میدان تعمیر کروانا یا روزگار کے مواقع فراہم کرنا نہیں ہوتا—اے ایف پی فائل فوٹو۔

یوں تو ارکان اسمبلی کی اہم ترین ذمہ داریوں میں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کی ذمہ داری قانون پر عمل درآمد کروانا اور حکومتی اداروں کے کام کی نگرانی ہوتا ہے۔

ارکان پارلیمان کی ذمہ داریوں میں سڑکیں بنوانا، پارک اور کھیل کے میدان تعمیر کروانا یا روزگار کے مواقع فراہم کرنا نہیں ہوتا۔

پھر سوال یہ ہے کہ عوام اور ان سے بڑھ کر بیشتر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور اینکر صاحبان یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ روزگار، سڑکیں، پل، پارک، نالوں کی تعمیر کے ساتھ فراہمی و نکاسی آب وغیرہ ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر رکن اسمبلی کی ان کاموں پر تحقیر کی جاتی ہے جو اس کے نہیں تو میڈیا اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوجاتا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیوں حلقے کی عوام اپنے رکن اسمبلی سے یہ امید کرتا ہے کہ وہ ان کاموں کو انجام دے جو اس کے کرنے کے نہیں ہیں یا کسی دوسرے کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہیں؟

ان سوالات کے جوابات بہت آسان اور سادہ ہیں جن میں سب سے اہم

1: ملکی سیاسی اور انتظامی مسائل سے لاعلمی

2: اختیارات کے غلط استعمال یا معلومات کا فقدان

3: انتخابات میں کامیابی کے لیے بلند و بانگ دعوے کرکے عوام کو بے وقوف بنانا ہے

اس تمام معاملے کو مزید سادہ کردیں تو اس کی وجوہات میں

1: انتخابی مہم کے دوران جان بوجھ کر ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے وعدے کرنا جن کو پورا کرنا اس کے اختیار نہیں ہوتا

2: اس غلط فہمی کے پھیلاؤ میں امیدواروں کے ساتھ ان کی پارٹیاں بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ یا تو وہ ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کر لیتی ہیں یا ساتھ دینے کے لیے منشور بھی دیتی ہیں

3: حکومتی اقتدار کے حصول کے لیے عوام سے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتا

یہی وجہ ہے کہ معصوم عوام اپنے حلقے سے منتخب ہونے والے رکن سے وہ توقع کرنا شروع کر دیتے ہیں جو وہ کر ہی نہیں سکتا اور یہی اس مسئلے یا غلط بیانی اور غلط فہمی کی جڑ ہے۔

انتخابی مہم کے دوران امیدوار اپنے حلقے کے ووٹرز کو ایسے حسین خواب دکھاتے ہیں اور تسلی دلاسے دیتے ہیں کہ جیسے منتخب ہونے کے بعد وہ حلقے کے مکینوں کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لے آئیں گے۔

بڑی بڑی باتیں، بڑے بڑے دعوے، جو سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور عوام کے لیے اس مصرہ کی جیتی جاگتی تصویر بنی وہ جاتی ہے کہ

"وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا"

افسوس تو یہ ہے کہ سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ میڈیا اور عوام نا سمجھ ہیں، وہ نہیں جانتے کہ منتخب ارکان کی بنیادی ذمہ داری کیا ہے۔

لیکن کیا یہ اتنی ہی سادی سی بات ہے کہ امیدوار جوشِ خطابت میں یا انتخابات میں کامیابی کے لیے ایسے ایسے وعدے اور دعوے کرلیتا ہے جو وہ پورا ہی نہیں کر سکتا؟

ایسا ہرگز نہیں، بات کچھ اور ہے۔ جب ارکان اسمبلی قانون سازی کے سہارے شہری یا بلدیاتی حکومت کے اختیارات سلب کر لیں یعنی بلدیاتی نمائندوں، کونسلر اور میئر صاحبان کے اختیارات رکن اسمبلی کو منتقل کر دیں تو علاقہ مکینوں کے کام کون کرے گا۔

جب ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈز کا اختیار شہری حکومت اور بلدیاتی نمائندوں سے لے کر صوبائی ارکان اسمبلی کو دے دیں تو عوام کیا کریں۔

بلدیاتی حکومت کو ذمہ داری پوری کرنے کے قابل نہ چھوڑیں اور ان کے کام کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کو استعمال کرنا شروع کر دیں تو پھر کیا ہو؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملک بھر میں بلدیاتی نظام اس قدر مضبوط اور طاقتور تھا کہ حلقے کے لوگ اپنے اپنے کونسلرز کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے اور رکن صوبائی اور قومی اسمبلی تک جانے کی نوبت کم ہی پڑتی تھی۔

یہ تو معلوم تھا کہ ان کے دفاتر کہاں ہیں اور وہ کب مل سکتے ہیں لیکن وہاں جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔

یہ بھی اہم ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے حلقے میں عوام سے ملا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ عوام سے دور ہو گئے تو آئندہ انتخابات میں ووٹ نہیں ملیں گے۔

سڑک ٹوٹی ہو یا گھر کے سامنے گٹر کا پانی بہہ رہا ہو، علاقے کے پارک میں گندگی یا غیر قانونی تعمیرات ہوں یا پارک اور کھیلوں کے میدان کی تعمیر، گھریلو جھگڑے ہوں یا برادری کے اختلافات، طلاق کے معاملات ہوں یا کسی گھر میں غربت سے فاقے، وبائی امراض سے بچاؤ کے ٹیکے ہوں یا حکومتی اسپتالوں میں علاج کی سہولیات کا فقدان ہر مسئلے کا حل کونسلر تھا۔

اپنے ہی علاقے کا رہائشی ہونے کے ناطے کونسلر سے رابطہ آسان اور مسائل فوری حل ہوتے تھے۔ کالج میں داخلے یا نوکری کی درخواست کے لیے کاغذات اور سند کی تصدیق یا کیرکٹر سرٹیفیکیٹ کا حصول سب کونسلر کے ذمہ تھا اور فوری ہو جایا کرتا تھا۔

یہ سارے کام کرنے کے لیے وفاق صوبے کو فنڈ جاری کرتا جو صوبہ شہری حکومت کو منتقل کر دیتا اور یہ ارکان پارلیمان کو پسند نہیں آیا ۔ ان کو اپنے اختیارات اور فنڈز کی منتقلی گراں گزر رہی تھی اور حکومت بنتے ہی انہوں نے تمام اختیارات اور فنڈز اپنے پاس منتقل کر لیے۔

یہ کام انہوں نے قانون میں ترامیم کر کے کیا ۔یعنی "نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا"

یہ سب کسی ایک صوبہ میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہوا اور عوام کی خدمت کا اختیار کونسلر یا شہری حکومت کے پاس نہیں چھوڑا گیا۔

غلط فہمی کو ہوا دینے کے لیے انہوں نے مسائل میں جکڑے عوام کے سامنے شہری حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹہرا دیا لیکن معصوم عوام کی قسمت میں رلنا تھا اور وہ رل گئے، ان کی زندگی چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کے دفاتر کے چکر لگانے میں بسر ہونے لگی۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کام کونسلر کے ہیں تو ارکان اسمبلی کیا کرتے ہیں؟

پاکستان میں قومی اسمبلی کا ہر رکن ایوان میں اپنے حلقے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ آئین کے مطابق رکن قومی اسمبلی کی بنیادی ذمہ داریوں میں :

1: قانون سازی یا قانون میں ترامیم کے ذریعے وقت و حالات کے مطابق تبدیلی

2: حلقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے ساتھ حکومتی اداروں کی کارکردگی کی نگرانی

3: حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنا

اس لحاظ سے کسی بھی عوامی نمائندے کی اہم ذمہ داری عوام کی فلاح اور معیار زندگی میں بہتری اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی یا مروجہ قوانین میں ترمیم تجویز کرنا ہوتا ہے ۔ جس کے لیے وہ ایوان میں قانون سازی بل پیش کرتا ہے اور دیگر قوانین کے لیے پیش کیے گئے بلوں کی منظوری یا نا منظوری میں اپنا ووٹ ڈالتا ہے۔

قانون سازی کے بعد رکن اسمبلی کی دوسری اہم ترین ذمہ داری حکومتی اداروں پر کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے جو وہ ایوان کی بنائی گئی مختلف کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے کرتا ہے۔

ساتھ ہی وہ عوامی نمائندہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے عوام کی شکایات سنتا اور ان کو دور کروانے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔ عوام کے مطالبات پر بیوروکریسی اور متعلقہ وزراء اور وزارتوں سے جواب طلبی بھی کر تا ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام کو سہولیات کی فراہمی اور بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔

خاص طور پر حذب اختلاف میں شامل ارکان ایوان کی طاقتور ترین کمیٹیوں کے سربراہ ہوتے ہیں جس کے ذریعے وہ بدعنوانی، رشوت ستانی، کام میں سست روی ،افسران اور عملے کی نااہلی سمیت کئی معاملات کی براہ راست نگرانی کرتا ہے اور حکومت کی کارگردگی میں بہتری اور درستگی کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور مسائل حل نا ہونے کی صورت میں اداروں کے سربراہوں کو کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر جواب طلب کر سکتا ہے۔

رکن قومی اسمبلی اپنے حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے نا صرف قومی اداروں بلکہ صوبائی اور ضلعی سطح کے اداروں سے بھی عوامی مسائل کے حل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

لہٰذہ تعلیم، صحت و صفائی، مناسب روزگار، فراہمی و نکاسی آپ کے منصوبے، ذرائع آمد رفت کی سہولیات سمیت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز کے حصول کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کے سامنے اپنے منصوبے کی منظوری کی کوششیں کرتا ہے۔

فنڈز کی منظوری کے بعد اس رکن اسمبلی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان منصوبوں کے عمل درآمد کی نگرانی اور ان کے بروقت مکمل ہونے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے۔

اسی طرح رکن صوبائی اسمبلی اپنے حلقے کے صوبے سے متعلق مسائل کے حل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں

1: قانون سازی

2: اپنے حلقے کی بہتری کی منصوبہ بندی

3: صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں کی کارکردگی کی نگرانی

4: صوبے کو ملنے والے فنڈز کا شفاف اور بہتر استعمال

مختصر الفاظ میں ممبر صوبائی اسمبلی اپنے حلقے کے رکن قومی اسمبلی کی ذمہ داریوں میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ رکن قومی اور صوبائی اسمبلی ایوان کے اجلاس کے دوران اپنے حلقے اور صوبے سے متعلق پارلیمان میں اداروں سے سوال کرتا ہے اور پوائنٹ آف آرڈر کے تحت اپنی آواز ایوان میں بلند کرتا ہے۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے قرضے کی ادائیگی کے بعد ترقیاتی پروگرام کو جاری رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا ۔

فنڈز کے استعمال میں بدعنوانی اور کرپشن جیسے ناسور سے نجات حاصل کرنے اور عوام کے مسائل کے حل کا تقاضہ ہے کہ اب بنیادی سہولیات اور علاقائی ترقی کے منصوبوں کا اختیار اور وسائل شہری حکومتوں کو منتقل کرکے ارکان اسمبلی قانون سازی اور فنڈز کے استعمال کی نگرانی پر توجہ دیں ۔ اسی میں ملک اور عوام کی ترقی ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔