31 جولائی ، 2018
چلو بھائی پیچھے ہٹو، تیری۔۔۔ تیری۔۔۔، بالی وڈ اور پاکستانی فلموں کا کیا مقابلہ؟ کہاں وہ فلمیں کہاں یہ فلمیں۔۔۔ پاگل ہو کیا؟ ۔۔۔ ہوگیا؟ ٹائیگر شیروف کی باغی اور سلمان خان کی ریس کے ایکشن اور اسٹنٹ کو علی ظفر کی طیفا سے ملارہے ہو۔
اچھا ہاں نا ’جیو‘ بھی تو فلم کے پیچھے ہے، اسی لیے پاکستان کی سب سے بڑی فلم کہہ رہے ہو؟ جاؤ۔۔۔، ارے چھوڑو پاکستانی فلموں کے گانے بھی کوئی گانے ہیں۔ سالے۔۔۔، اپنی اوقات میں رہو۔
او ہو۔۔۔، یہ منہ اور مسور کی دال، ارے او۔۔۔، ٹریلر اور ٹیزر سے کیا ہوتا ہے فلم ریلیز ہوگی تو لگ پتا جائے گا۔
یہ تھے وہ” کچھ “تاثرات جو ’طیفا ان ٹربل‘ کی ریلیز سے پہلے ہمیں سننے کو ملے، یہاں سے بھی اور وہاں سے بھی۔ اکثر جگہ ’ڈیش‘ یعنی۔۔۔ کا سہارا اس لیے لیا کہ وہ وہ ”گالیاں“ پڑی جو لکھی تو کیا ان کا اشارہ دیتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔
”ڈر“ تو تھوڑا دل میں بھی بیٹھ گیا تھا کہ واقعی فلم میں کیا ہوگا؟ پوری فلم کیسی ہوگی؟ ایکشن کامیڈی نہ بن جائے، کامیڈی پر غصہ آئے اور ٹریجڈی پر ہنسی لیکن فلم شروع ہونے سے پہلے ہی یقین نے ڈر کے ہر میدان پر فتح حاصل کرلی۔
پھر فلم کے دوران اور فلم میں کیا ہوا یہ سب تو آپ کو بتانا ہی ہے لیکن ہاؤس تو فُل تھا ہی فلم ختم ہوئی اور آوازیں بلند ہونی شرو ع ہوئیں۔
واہ یار کیا ”دھانسو “فلم تھی، ایک منچلے نے سیٹی بجائی اسی کے دوسرے ساتھی نے پیٹھ پر ہاتھ مار کر کہا بہت ”ٹائٹ “بھائی بہت ہی ”ٹائٹ “ تیسرا بولا ”بمبو“ چوتھا بولا ”بمباٹ “۔
ایک پاپا نے اپنی بیٹی سے کہا بیٹا ”بہت اعلیٰ“مزہ آگیا، انہی کی بیگم صاحبہ بولی واقعی پوری” فیملی“ نے بڑے عرصے بعد سنیما میں ”انجوائے“ کیا ہے بھئی ”زبردست“میں اپنی امی ابو کو بھی سینما یہی ”فیملی فلم “دکھانے لاؤں گی۔ ایک اسمارٹ نوجوان بولا ”ایکشن “ہو تو ایسا کیا ” کِک“ تھی اور کیا ”پنچ“ اور جمپ تو کمال کی تھی۔
ایک بھائی نے لائٹر سے سگریٹ سلگاتے ہوئے ”ناقد“ کی طرح کسی کو موبائل فون پر بولا لکھ لو ”طیفا سارے ریکارڈ توڑدے گی“۔ اسٹوڈنٹ کا ایک گروپ ”آئٹم نمبر“ کورس میں گاتا ہوا جارہا تھا۔ ایک پریمی جوڑا ” چن وے “ گُن گنا رہا تھا اور ایک دوستوں کی ”تکون“ بھی جارہی تھی جس میں سے تھوڑا فاصلے والا ”سجنا دور“ کی تان لگارہا تھا، ایک” دِل جلا “ سب سے الگ تھلگ ”عشق نچاؤندا “ کی صدا لگاتے ہوئے اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔
بچے ٹونی اور بلو بٹ کے اسٹائل کی نقل کر رہے تھے، سینما سے باہر نکلتے ہی کسی نے موٹر سائیکل طیفا کے انداز میں گھمائی تو کسی نے باہر نکلتے ہی نظر گھمائی ”گَنا“ ہاتھ نہیں لگا تو ایک چوکیدار سے اس کا ڈنڈا لے کر طیفا کے انداز میں گھمانے کی ناکام کوشش کی۔
حد تو آخر میں ہوئی جب ایک سوٹ بوٹ والا ” ایگزیکٹوانگلش انکلوں “کا گروپ سنیما سے نکلا اور سامنے چائے والے کے ہاں بیٹھا، دودھ پتی چائے منگوائی اور سب ”بونزو“ فلم کے” بشیرے“ کی طرح دیسی بن گئے اور اس کے بعد پھر،،، جی ہاں پھر ڈیش ڈیش لیکن اس بار پیار کی گالیاں تھی بچپن کی تالیاں تھیں سب کا ”اپنا پن“ نکل کر باہر آچکا تھا۔ ہمارافلم پر یقین اب ڈر کو لِٹا چکا تھا طیفا ہم سب کو” ٹربل“ سے نکال چکا تھا۔
طیفا اِن ٹربل میں ”فُل انٹر ٹینمنٹ فلم “ ہے جس میں ایکشن بھی، گانے بھی، رومانس بھی، ڈرامہ بھی ہے، لوکیشن بھی فلیش بیک بھی لیکن فلم کا سب سے بڑا ” و ایس پی “ اس کی ”کامیڈی“ اور” اسمارٹنیس“ ہے۔
فلم کے شروع میں ہی بلو بٹ کا ”لک“ اس کی انٹری، اس کا سیرھی چڑھنے کا انداز، اس کا ٹشن اور بھرم بازی دکھانے کا انداز، اس کی اسپیلنگ، اس کا لہجہ اور پھر اس کا ”نتیجہ“ ہی فلم دیکھنے والے کو ہنسا ہنسا کر پیٹ میں درد کردیتا ہے۔ ایسا انداز جو نہ صرف” اپنا“ تھا بلکہ سب سے الگ اور جدا بھی۔ ایسی”لعنت “جس کو دیکھ کر ہنسی کا فوارا چھوٹ جاتا ہے۔ پھر طیفے کی کافی لیٹ لیکن زبردست انٹری اور خوب سار ی کامیڈی اور ایکشن ہی ایکشن۔
ٓآگے پوری فلم ’ویری ویری فلمی‘ ہے یعنی کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، جیسا فلموں میں ہونا چاہیے ویسا ہی اس فلم میں بھی ”ہو بہو “ہوا ہے۔ اگر ہم لوجک نکالنے بیٹھ جائیں گے تو سارا کام ہی ٹھپ ہوجائے گا۔ فلموں میں تو میجک ہوتا ہے ،دو دُنی پانچ ہوتا ہے۔
یہی خوبصورتی کا میجک آنیہ یعنی مایا علی کی انٹری میں دکھا، ان کی انٹری طیفا جیسی زور دار تو نہیں تھی لیکن اِس میں بھی مار دھاڑ تھی۔ فلم تو پوری بڑے مزے کی ہے، فلم کے آدھے گھنٹے کے دوران ایک لمبا ایکشن کامیڈی سین بھی آچکا ہوتا ہے جس میں اندرون لاہور کی چھتوں کی سیر بھی ہوچکی ہوتی ہے اور ڈرون کے شاندار مناظر کی بھی، ساتھ میں طیفا کو چپل بھی پڑ چکی ہوتی ہے۔
لیکن اب باری ہے غالباً فلم کے سب سے فیورٹ سین کی جب ”بونزو“ پہلی بار پھر سے بشیرا بنتا ہے اور اپنا دیسی پن سامنے لاتا ہے، اس سین سے پہلے احتیاط لازمی ہے کیونکہ ہنس ہنس کر آپ اتنا لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں کہ آگے کئی مکالمے مِس کرجاتے ہیں۔
اسی طرح طیفا اور مایا علی کے کمرے کامنظر، آئرن مین، فیصل قریشی جب بھی سین میں آتے ہیں، طیفا کی ہتھکڑی توڑنے کیلئے آنیہ کی ”کوششیں“،گاڑی ”پنکچر ہوگئی ہے میری کار“ کے کلاسک گانے کی انٹری، طیفا کی جیکٹ کی قربانی کے بعد ’مشکل‘ ایکشن سین میں ڈنڈے والے بابا کی بے ساختگی، بلو بٹ کی شیروانی، بٹ صاحب کی ”رکھوالوں“ کیلئے ”بری خبر“اس سے پہلے ”بٹ صاحب “کا انٹرویو سب بہت چٹپٹے اور مزیدار ہیں اور آخر میں ” بینڈ باجا بارات “ کے بعد ”کِل دِل“ تکون کی انٹری بھی ماسٹر اسٹروک ہیں۔
فلم کے شروع میں ہی ایک بات صاف ہے سب نے ہنسنا ہے خوب قہقہے لگانے ہیں اور انجوائے کرنا ہے اور یہی فارمولا فلم کے آخر تک چلا ہے۔ فلم میں رومانس چل رہا ہو یا تھوڑا سا ایموشن یا پھر کلائمکس کا ایکشن یا کامیڈی کی پنچ اچانک آ کر سب کو کھاجاتا ہے اور فلم دیکھنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ چھوڑ جاتا ہے۔
فلم دیکھ کر یہ بھی پتا لگ جاتا کہ احسن رحیم اور علی ظفر نے فلم کے ٹیزر اور ٹریلر کیلئے کئی ایسی خاص سین، مکالمے اور ایکشن شوٹ کیا ہے جو فلم میں ہیں ہی نہیں۔
فلم میں ”پاسپورٹ “ اور” ویزا“ تو” فلمی لبرٹی“ میں آجاتا ہے لیکن اس سے بھی ”آسانی “سے بچا جاسکتا تھا۔ جب طیفا اور ٹونی ”اُلٹی“ کرتے ہیں تو ایسا لگا کہ” ٹونی“ ڈبے میں منہ ڈالتے ہی نہیں بلکہ ”چیٹ“ کررہے ہیں۔ نیئر اعجاز کی مونچھیں پر بھی ”اور“ کام ہوسکتا تھا، لاہور کی دکانوں کے ”بورڈ“بھی بالکل ”نئے “ لگے، ایکشن سین لمبے لیکن اچھے بھی بہت تھے۔
فلم میں”خوامخواہ“ کا کوئی” ایموشن“ نہیں ڈالا گیا، طیفا کی ماں کو نہ تو مجبور دکھایا گیا نہ ان کے ساتھ کوئی بھی بد تمیزی، یہاں تک کہ طیفا بھی پوری فلم میں بٹ صاحب سے بد تمیزی تک نہیں کرتا۔
فلم میں ذومعنی الفاظ یا جملوں سے بھی مکمل بچاگیا ہے۔ فلم کیونکہ اندرون لاہور کی کہانی ہے اس میں کراچی کی آڈینس کو ٹارگٹ کرنے کیلئے کوئی کردار یا منظر زبردستی ٹھونسا بھی نہیں گیا۔ فلم کے کئی ایکشن مناظر کا ٹریٹمنٹ بہت ہٹ کر تھا جہاں دو تین سینز کو جھٹ پھٹ لیکن کریٹو طریقے سے جوڑ کر وقت کو بچایا گیا۔
فلم کے مکالمے کہیں بہت مزاحیہ کہیں کم مزاحیہ تھے لیکن اداکاروں کی ٹائمنگ اور ڈائریکٹر کا ٹریٹمنٹ سین کو کہیں کمزور نہیں ہونے دیتا۔
فلم میں پولینڈ کی لوکیشن میں ایک جگہ ٹرک پر کودا جاتا ہے جہاں ”یہاں“ کا ”گدا“ ہوتا ہے۔ یہ مارکیٹنگ کے ساتھ سوشل میڈیا کیلئے بھی ماسٹر اسٹروک تھا کیونکہ فلم بنانے والے بھی بڑے ہوشیار ہیں وہ جانتے ہیں ان کی کن کن” غلطیوں“ کو لے کر سوشل میڈیا پر چرچا ہوگی تو وہ جان بوجھ کر ایسی ”ٹرکس “ کرتے ہیں کہ فلم پر بات نہ کرنے والے بھی اِن باتوں کو ”غلطیاں“ سمجھ کر خوب اچھالیں۔
فلم کو” اسمارٹ“ اس لیے بھی کہا کے فلم میں کئی مناظر ہیں جو ایڈیٹ ہوسکتے تھے لیکن ان کو شوٹ اتنا اچھا کیا گیا کہ وہ ”اضافی“ نہیں لگتے یا ”بور“ نہیں کرتے۔ ایک سین جہاں طیفا کے بہت سارے روپ ہوتے ہیں ”ٹیکنیکلی“ بہت اچھا شوٹ ہوا ہے اور زیادہ تر کو پسند بھی آیا لیکن ہمارے خیال میں یہ ”ایڈیٹ“ بھی ہوسکتا تھا، شاید یہاں پروڈیوسر ڈائریکٹر سے جیت گیا ہو۔
سیدھی بات ’طیفا اِن ٹربل‘ پاکستانی فلم انڈسٹری کا” بہتری“ کی طرف پہلا تو نہیں لیکن اب تک کا سب سے ”بڑا“ قدم ہے۔
فلم ٹیکنیکلی،گانے اور موسیقی، ایکشن، اسٹنٹ، لوکیشن،کامیڈی، بیک گراؤنڈ میوزک، ڈائریکشن ، پروڈکشن، مارکیٹنگ، ایڈیٹنگ، سینماٹوگرافی، ڈانس یعنی کوریوگرافی، اسپیشل ایفکٹس، بجٹ، یو ٹیوب ہٹس اور بیرون ملک ریلیز کے لحاظ سے اب تک کی پاکستان کی سب سے ”بڑی“ اور ”اسمارٹ “فلم ہے۔
کہانی اور ایموشن میں فلم کو نمبر تھوڑے سے کم دیے جاسکتے ہیں لیکن یہ نمبر بھی فلم کا” اسکرین پلے“ اور ”چٹپٹے مکالمے “ بیلنس کردیتا ہے اور ہمارے خیال میں اس فلم میں زیادہ ”ایموشن“ ڈالا جاتا تو فلم کا اصل ”فلیور“ ہی ختم ہوجاتا۔
اس فلم جیسا ایکشن تو کسی پاکستانی فلم میں دیکھا ہی نہیں گیا، اس بات پر بھی کسی کی دو رائے نہیں کہ فلم مکمل ’فلم‘ بڑے پردے کی فلم ہے کوئی فلم کہلا کر ریلیز ہونے والی ”ٹیلی فلم “ نہیں بلکہ ”مکمل پیسہ وصول“ فلم ہے اور ایک بار نہیں بار بار دیکھنے والی فلم ہے۔
اداکاری اور ڈائریکشن
’دیر آئے درست آئے‘ یہ کہاوت بالکل فِٹ بیٹھتی ہے فلم کے ڈائریکٹر احسن رحیم اور پروڈیوسر اور ہیرو علی ظفر کیلئے۔ اس فلم کو”من موہنی“ مایا علی کیلئے بھی ”ڈریم ڈیبو “ ہی کہا جائے گا۔ پہلی فلم ہی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول فلم اور کیا چاہیے؟ سب نے بہت محنت کی، ہر سین میں محنت صاف نظر آئی۔
اسٹائل، کاسٹیوم، اسٹنٹ، بجٹ، لوکیشن، ایکشن، کامیڈی، سب پر بہت کام کیا ہوا محسوس ہوا۔ پوری فلم کو علی ظفر لے کر چلے بلکہ بھاگے اور فنش لائن پر سب سے پہلے پہنچ کر ہی دم لیا۔
علی ایکشن، کامیڈی اور رقص میں سارے نمبر لے گئے ہاں کچھ ایموشن سین میں ان کے کچھ نمبر کاٹنے پڑیں گے۔ طیفا کی کچھ پروموشن ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ علی ظفر اور پوری ٹیم نے ان ایکشن اور اسٹنٹ کیلئے کتنی محنت اور مشقت کی۔
طیفا کی پی ایس ایل میں” ہوائی انٹری“ بھی آج تک سب کو یاد ہے۔ مایا علی پہلی فلم کے بعد ہی ”میم“ سے ہی ماہرہ خان اور مہوش حیات کے ساتھ آکھڑی ہوئیں۔
انھوں نے ہر سین میں جم کر اداکاری کی، فیصل قریشی، محمود اسلم اور جاوید شیخ تینوں فلم کی جان تھے اور تینوں نے اپنا نقش خوب چھوڑا ہے۔
بلو بٹ کو بھلا کوئی فلم دیکھنے کے بعد بھول سکتا ہے؟ جاوید شیخ کی دوسری بیوی کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ نہ تو اتنی” پرکشش“ لگی نہ ہی ”انگلش“ نہ اتنی عیار اور نہ ہی مکار، وہ اس کردار میں”مِس فِٹ“ سی لگیں۔
مایا علی کے باڈی گارڈ ”انکل“ دوسرے ہاف میں اچانک ”ولن “ بن کر نیئر اعجاز سے سارا کریڈ ٹ چرا کر لے گئے۔ احسن رحیم نے ٹائم لگا کر اور محنت کرکے اپنی پوری ٹیم خاص طور پر سینما ٹوگرافی، ایکشن اور ڈانس کوریگرافر سے” اے پلس” کام لیا۔
وہ کام جو پاکستان فلم انڈسٹری میں اپنے اعلی معیار کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فلم کے ہر اداکار کے کردار کے ”لُک، اسٹائل، لہجے، چال ڈھال اور لباس“ سمیت ہر شعبے میں بہترین کام کیا گیا ہے۔
میوزک
’طیفا ان ٹربل‘ میوزک کے اعتبار سے بھی اب تک کی پاکستان کی سب سے بڑی، مقبول اور کامیاب فلم ہے، فلم کا میوزک اور گانے زبردست ہیں جتنے سننے میں اچھے لگتے ہیں دیکھنے میں اور شاندار دکھتے ہیں۔
گانوں کی پوزیشن اور سیچویشن پر سوال اٹھ سکتا ہے لیکن جب ”آئٹم نمبر“ شروع ہوتا تو سنیما میں بیٹھے سب لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور زور زور سے ہیرو اور ہیروئن کے ساتھ گاتے ہیں۔
آئٹم نمبر فلم کا پہلا گانا ہے جو فلم شروع کے پورے ایک گھنٹے کے بعد آتا ہے اور اچانک آتا ہے۔ آئٹم نمبر پورا علی ظفر اور مایا علی کے نام ہے اس گانے پر علی ظفر کے علاوہ کسی اور کی آواز سوٹ ہی نہیں ہوتی۔ اس گانے میں رقص بھی اعلیٰ ہے اور اسٹائل بھی، پورا تھیٹر گانے کے ساتھ جھوم رہا تھا۔
اس کے بعد دو گانے اور ہیں جو جلدی جلدی آتے ایک تو” چن وے“ جو شاید اگر علی ظفر عاطف اسلم سے پلے بیک کرواتے اور بیک گراؤنڈ پر رکھواتے تو شاید اس گانے کی مقبولیت اور پہنچ اور بڑھ جاتی، بہرحال اب بھی یہ فلم کا اب تک کا سب سے مقبول گیت ہے جس میں فیصل قریشی کے انداز نے علی اور مایا علی کی رومانٹک کیمسٹری کو نرالا تڑکہ لگایا ہے۔
فلم کا تیسرا گانا ”سجنا دور“ یہ گانا بھی لگتا ہے کہ بنا ہی صرف علی ظفر اور مایا علی کیلئے تھا اور اس گانے کی عکاسی نے گانے کا مزا دوبالا کردیا۔ غالبا یہ پاکستان کی فلمی تاریخ کا سب سے بہترین شوٹ ہونے والا گانا ہے جس کی لوکیشن نے بھی اپنا جادو دکھایا، ایسی لوکیشن بالی وڈ کی فلموں میں اب تک استعمال نہیں ہوئی۔ ہر فلم دیکھنے والا اپنے آپ کواپنے محبوب کا ہاتھ تھام کر اس پانی پر چلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
فلم کا چوتھا گانا جو تھا ہی بیک گراؤنڈ پر تھا ”عشق نچاؤندا“ یہ گانا بھی اگر علی ظفر راحت فتح علی، سکھویندر یا اسرار سے گواتے تو شاید اس گانے کا اثر اور بڑھ جاتا۔
گانوں کے ساتھ فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی بین الاقوامی معیار کا ہے، طیفا کی تھیم اور ساؤنڈ ایفکٹس پر بھی بہت اچھا کام کیا گیاہے۔
طیفا کا باکس آفس
طیفا ان ٹربل اب تک کون کون سے ریکارڈ توڑ چکی ہے یہ تو سب کے سامنے آچکا ہے لیکن یہ فلم ہمارے خیال میں پاکستان میں 40 سے 50 کروڑ کے درمیان بزنس کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی فلم ہوسکتی ہے۔
ایسا جنون سنیما گھروں میں پاکستانی فلم کیلئے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ سنیما میں ”آئٹم نمبر“ کے وقت پورا سنیما کیا بڑا کیا بچہ، کیا خاتون کیا بزرگ، کیا منچلے، کیا برگرز، کیا شوہر کیا بیگم سب مل کر علی ظفر اور مایا علی کے ساتھ کورس میں آئٹم نمبر گارہے تھے بلکہ شور مچارہے تھے۔ کچھ اگر شرمارہے تھے تو وہ بھی میوزک بیٹ پر ٹانگیں ہلارہے تھے۔
ویسے تو باکس آفس پر کچھ حتمی نہیں، کل کیا ہوجائے کوئی نہیں جانتا لیکن طیفا کی کامیڈی، پروموشن، گانے، اسٹار ویلیو، ڈائریکشن، فینز کا جنون اور اب تک کے بزنس کے بعد یہ بات دہرائی جاسکتی ہے کہ یہ پاکستان کی سب سے کامیاب فلم کا اعزاز حاصل کرلے گی۔
طیفا اِن ٹربل نہ صرف ’جوانی پھر نہیں آنی‘ بلکہ اس سے آگے ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ اور اس سے بھی آگے ’سنجو‘ کو بھی پیچھے چھوڑنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ طیفا پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے 51 کروڑ کے ریکارڈ کو بھی کروڑوں روپوں سے اور بہتر کرسکتی ہے۔
ویسے تو طیفا کی بطور فلم” میرٹ“ ہی کافی ہے لیکن آگے حالات بھی طیفا کیلئے خاصے بہترلگ رہے ہیں کیوں کہ بالی وڈ اور ہالی وڈ سے کوئی بڑی یا خان ہیروز کی فلم طیفا کیلئے خطرہ نہیں بنے گی۔
مشن امپاسیبل کی آندھی کو بھی طیفا کے فینز نے دیوار بن کر روک لیا ہے۔ اب بڑی عید تک بالی وڈ کی کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں کوئی بڑا نام نہیں، ان میں سے اکثر یہاں پاکستان میں اپنے موضوع اور کہانی کی وجہ سے شاید ریلیز بھی نہیں ہوں پائیں لیکن اگریہ تمام فلمیں یہاں ریلیز ہوتی بھی ہیں تو ہمارے خیال میں طیفا کے بزنس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جو فلمیں بالی وڈ میں بڑی عید سے پہلے ریلیز ہونگی ان میں مُلک، پھنے خان، وشواروپم، ستیہ میوجیاتہ اور اکشے کمار کی گولڈ شامل ہیں۔ طیفا کو ایک اور بڑا فائدہ کراچی میں کھلنے والے نئے سنیما کا بھی ہوا ہے اور اس سنیما کے اکیلے کا بزنس پاکستان کے کئی شہروں سے زیادہ ہے۔ اس سینما سے میٹھی عید کی فلمیں تو اتنا فائدہ نہیں اٹھاسکی لیکن بالی وڈ کے” سنجو“ کو کروڑوں دلوانے میں اس سنیما کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
عید سے پہلے ابھی طیفا کو 3 اور”اوپن ویک اینڈ“ ملیں گے، اس کے علاوہ یوم آزادی 14 اگست کی چھٹی بھی درمیان میں آئے گی۔
بڑی عید پر تین بڑی پاکستانی فلموں کی ریلیز کے باوجود اگر طیفا کے کریز اور بزنس کی وجہ سے شوز ہوتے ہیں تو پنجاب کی بیلٹ میں طیفا اور آگے جائے گا۔ ان حالات میں یہ امید لگانا کہ ’طیفا اِن ٹربل‘ پاکستان میں چالیس سے پچاس کروڑ کے درمیان بزنس کرنے والی پہلی فلم ہوگی غلط تو نہیں البتہ کافی لوگوں کیلئے حیران کن ضرور ہوسکتا ہے۔
ویسے یہ اتنی حیرانی کی بات بھی نہیں کیونکہ ہم شعیب منصور صاحب کی کلاسک اور کامیاب ’خدا کیلئے‘ اور ’بول‘ کے بعد ’وار‘، ’نامعلوم افراد‘، ’رانگ نمبر‘، ’جوانی پھر نہیں آنی‘، ’ایکٹر اِن لاء‘، ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’مور‘، ’ورنہ‘، ’ہو من جہاں‘، ’جانان‘، ’سات دن محبت ان‘، ’کیک‘، ’چلے تھے ساتھ‘ اور ’موٹر سائیکل گرل‘ اور اب ’طیفا ان ٹربل‘ جیسی فلمیں بناچکے ہیں۔
ان میں سے اکثر سپرہٹ، کچھ کامیاب، کچھ ایورج، کچھ ناکام لیکن مختلف اور تجرباتی فلمیں بناچکے ہیں۔ بہت ساری ناکام، کامیاب اور ایورج فلموں کا ذکر اوپر نہیں لیکن پھر بھی سب فلموں کا ایورج نکال کر دیکھا جائے اس کو یہاں کے حالات، کم سنیما، مہنگے ٹکٹ، کم بجٹ، نقصان زیادہ، لوگوں کا رجحان، ڈیجیٹل اور سیٹلائٹ رائٹس، بالی وڈ اور ہالی وڈ فلموں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔
نوٹ:
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔
2۔۔ ہر فلم سنیما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اورایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے ،جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے ،آپ سے ،فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں ۔۔۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔۔۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے،جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگاورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال،ڈھائی سو سال،ڈھائی سال،ڈھائی مہینے،ڈھائی ہفتے،ڈھائی دن تو دور کی بات دوگھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔