16 اگست ، 2018
اسلام آباد: ملک کے 22ویں وزیراعظم کا انتخاب کل عمل میں لایا جائے گا جس کے لیے عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مقررہ وقت تک صرف 2 ممبران قومی اسمبلی عمران خان اور شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔
دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد نامزدگی فارم درست قرار دیتے ہوئے منظور کیے گئے۔
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام ساڑھے 3 بجے شروع ہوگا جس کے دوران ایوان کی دو حصوں میں تقسیم سے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
ہر امیدوار کے لیے قومی اسمبلی ہال میں ایک ایک لابی مختص ہوگی، جو رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہے گا اس لابی میں چلا جائے گا جس کے بعد اراکین کی گنتی کے بعد اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا نیا وزیراعظم ہوگا۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق 342 کے ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی امیدوار کو سادہ اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوتے ہیں، اگر 172 کی اکثریت نہ ملے تو ایوان کے اکثریتی ارکان سے انتخاب ہوتا ہے۔
وزارت عظمیٰ کیلئے قومی اسمبلی میں نمبر گیم
قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناو کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ ق 3، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اس کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ 7، پاکستان مسلم لیگ ق 3، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176بنتی ہے۔
چار آزاد امیدواروں کا جھکاو بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔
ہم خیال جماعتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس 81 نشستیں ہیں جبکہ انہیں متحدہ مجلس عمل کے 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 1 ممبر کی حمایت حاصل ہے اور اس طرح اپوزیشن کی عددی قوت 97 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 ارکان ہیں تاہم پی پی نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وزیر اعظم کی نشست کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
342 کے ایوان میں 2 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی ، 2 نشستیں ق لیگ اور 1 نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئی۔
اسی طرح ایک نشست این اے 215 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دیا گیا مگر اب تک ایسا نہ ہوسکا اور یوں ایوان 330 ارکان کا ہوگا۔
وزیراعظم کے چناؤ کے روز اگر 330 ممبران موجود ہوتے ہیں تو اس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کا ووٹ درکار ہوگا، یعنی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئے گی اور اپوزیشن کے مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔
قائد ایوان کے 2013 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو اُس وقت میاں نواز شریف نے دو تہائی سے زائد یعنی 244 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم نے 42 ووٹ اور جاوید ہاشمی نے 31 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی 339 ووٹوں میں سے 221 ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کے منصف پر فائز ہوئے تھے۔