کھیل
Time 18 ستمبر ، 2018

پناہ گزین کیمپ سے فٹبال کے میدان تک کا سفر

مسعود اوزل جرمنی کے بہترین فٹبالرز میں شمار ہوتے ہیں—اے ایف پی۔

کہتے ہیں اگر خود پریقین ہو تو انسان اپنی تقدیر خود بدل سکتا ہے اور کوہ ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان کھلاڑی مسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں پناہ گزین کیمپ سے لے کر فٹبال کے میدان تک کا سفر کامیابی کیا۔

مسعود اوزل نے ایک پناہ گزین کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن اب ان کا شمار دنیا کے بہترین فٹبالرز میں ہوتا ہے۔ ان کی آمدنی ایک کروڑ 56 لاکھ پاؤنڈز ہے۔ اب وہ کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔

وہ 2014 ورلڈ کپ چیمپئن جیتنے والی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔ جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16 ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ان کی کمیونٹی میں سے ایک لڑکا عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ ان کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔ مسعود اوزل کو جرمنی کے پہلے تاریک وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔

ابتدائی زندگی

مسعود اوزل کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔وہ 15اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے ۔1967 میں مسلم نوجوان فٹبالر مسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنے کا خواب لے کر ترکی سے کوچ کیا اور جرمنی کےپناہ گزین کیمپ میں رہائش اختیار کی لیکن یہاں بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ان کے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نے اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانے کےلیے سخت محنت کی اور کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔

فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر مسعود اوزل کی ایک تصویر—فائل۔

مسعود اوزل کے والد مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سے ہیں۔ مصطفیٰ اوزل کے والد نے 6 سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔

مسعود اوزل کے فٹبالر بننے سے قبل ان کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغی سے بنی اشیاء (چکن پروڈکٹس ) فروخت کیا کرتے تھے۔

مسعود اوزل کے ایک بھائی متلو اوزل اور دو بہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں۔ مسعود اوزل نے بچپن میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاری لیکن وہ اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کیلئے پرعزم تھے۔

فٹبال سے محبت

مسعود اوزل کی فٹبال سے محبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے اپنے پسندیدہ قریبی گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا۔

انہوں نے اپنے بڑے بھائی متلو اوزل سے بال پر کنٹرول حاصل کرنا سیکھا۔ بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیند کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اپنے بڑے بھائی کے کھیل کو بغور دیکھتے رہتے تھے۔

انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کے ساتھ ’منکی کیج‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں انہوں نے گیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔

ان کے بڑے بھائی متلو اوزل کا کہنا ہے کہ ’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہو یا گرمی، سخت بارش ہو یا برفباری، وہ فٹبال کے میدان میں ضرور ہوتا۔‘

انہوں نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایا اور یہیں سے انہوں نے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا۔

جرمن فٹبالر مسعود اوزل کی بچپن کی تصویر۔

مسعود اوزل کو کھیل کے میدان کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ بہت شرمیلے، سنجیدہ اور کم گو تھے اور زمانہ طالب علمی میں لوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔

ان کے اسکول ٹیچر کربے کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو میں نے اس کی عمر کو چیک کیا، وہ جسمانی طور پر چھوٹے اور کمزور لگ رہے تھے لیکن جب وہ میدان میں آئے ان کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدل گئی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بہت متاثر کیا اور ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔‘

انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز

29سالہ مسلم فٹبالر نے فروری میں 2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔

انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی۔

ان کو پہلی بار 2010 فیفا ورلڈ کپ میں جرمن فٹبال ٹیم میں شامل کیا گیا جس میں انہوں نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول داغا جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔

انہیں اس میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ ان کو 2010 فیفا ورلڈ کپ ٹاپ اسسٹ سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 92 میچز میں 30 گول اسکور کئے۔ وہ2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئر بنے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔

وہ 2013 سے انگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ، ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔

مسعود اوزل بچوں میں تحائف تقسیم کررہے ہیں۔

انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جرمنی کا زیڈان

وہ 2010-2013 تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اور اٹیکنگ اسکلز کی بدولت ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھے وہ بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد سے وہ ’’جرمنی کا زیڈان ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

مسعود اوزل کی اطالوی موٹر ریسنگ ڈرائیو راینزو فیراری سے مشابہت مسعود اوزل کی شکل سابق اطالوی موٹر ریسنگ ڈرائیو راینزو فیراری سےبہت ملتی ہے۔ جو 14اگست 1988 میں دنیا سے کوچ کرگئے تھے جبکہ مسعود اوزل کی پیدائش 15اکتوبر 1988 ہے۔ 

بدھ مت اور تاؤ مذہب کے پیروکار کا عقیدہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسرا جنم لیتا ہے۔ اس لئے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسعود اوزل ،اینزوفیرار ی کا دوسرا جنم ہے ۔

فلاحی کام

مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والے پرائزمنی5 لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودیئے جو23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج و معالجے پر خرچ ہوئے۔ انہوں نے 2016 میں اردن میں پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس بھی تقسیم کی۔

کتاب ’مسعود اوزل سپر اسٹار ‘

ایک گمنام مداح نے مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ’’مسعود اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن اس مداح کی خواہش ہے کہ ان کا نام منظر عام پر نہ لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا اور انہوں نے گمنام مداح سے ایک اور کتاب Gunning For Greatness کے عنوان سے لکھنے کی فرمائش کر ڈالی ۔

اسلام سے محبت

جرمن فٹبالر مسعود اوزل ایک پکے مسلمان ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں ہر میچ سے قبل قرآنی آیات کی تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتا ہوں، اللہ سے دعا مانگتا ہوں اور میرے ساتھی مجھے جانتے ہیں اس لئے وہ اس دوران مجھ تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں اور رمضان المبارک میں روزے بھی رکھتے ہیں۔

نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ

2018 ورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب ادوان سے ملاقات پر پہلے ہی برہم تھا اور حکام نے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا ملبہ مسلم کھلاڑی پر ڈال دیا اور ترک صدر سے ملاقات کرنے کو سخت تنقید کی۔

مسعود اوزل فٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوئے اور انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارے لکھا۔

انہوں نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تو جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن، مہاجر ہوگئے۔‘‘

انہوں نے مئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر اترک نژادلکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔

خیال رہے کہ ان کی ترک صدر کے ساتھ یہ دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل انہوں نے 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔

ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل مسعود اوزل کے انٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔

انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جوقومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ادھر ترکی نےمسعود اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘

مزید خبریں :