09 نومبر ، 2018
ماسکو: روس میں افغانستان کے دیرپا امن سے متعلق کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان سمیت 11 ممالک کے وفود اور افغان طالبان کا وفد بھی شریک ہوا۔
امریکی اخبار کے مطابق کانفرنس کے دوران بظاہر کوئی بریک تھرو سامنے نہیں آیا۔ شرکاء نے کانفرنس کے انعقاد کو ہی کامیابی قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ایک اور بیٹھک کرنے پر اتفاق کیا ہے تاہم اس کی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
افغان طالبان کے وفد کا یہ ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ تھا جسے اس کی بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔
کانفرنس میں شرکت سے قبل طالبان وفد میں شامل ایک رکن نے کہا کہ 'ہم اس کانفرنس میں اس لیے شرکت کررہے ہیں کیوں کہ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی افغان مسئلے کے پر امن حل کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کیلئے کسی بھی اجلاس میں شریک ہوسکتے ہیں'۔
'ماسکو فورمیٹ' کے نام سے ہونے والے مذاکرات میں طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد، افغانستان امن کونسل کا وفد اور پاکستان سمیت دیگر 11 ممالک کے وفود شریک ہوئے، امریکا اور بھارت نے مبصر کے طور پر شرکت کی۔
مذاکرات کا آغاز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی تقریر سے ہوا، جن کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور امید ہے کہ ماسکو اجلاس میں افغانستان امن عمل سے متعلق سنجیدہ اور تعمیراتی بات چیت ہوگی۔
سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں گزشتہ 17 سالوں سے جاری خانہ جنگی کے حل کیلئے فریقین کے درمیان مذاکرات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں فریقین (افغان حکومت اور طالبان) کی موجودگی براہ راست مذاکرات کیلئے کارآمد ہوگی۔
'پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے'
دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری (افغانستان و مغربی ایشیاء) محمد اعجاز نے کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔
'ماسکو فورمیٹ' کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں افغان ہائی پیس کونسل کے نمائندوں اور قطر آفس کے افغان طالبان وفد نے شرکت کی۔
دفتر خارجہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاءنے افغانستان میں سیکورٹی کی مخدوش صورتحال اور اس سے ہمسایہ ملکوں کو درپیش خطرات سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اجلاس میں پاکستانی وفد نے افغانستان میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کیلئے پاکستانی عوام کے برادرانہ جذبات کو اجاگر کیا۔
وفد نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کیلئے تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان نے کئی سال قبل افغان تنازع کا افغان حکومت اور عوام کی قیادت میں حل پر زور دیا تھا جسے آج بطور بین الاقوامی رہنماء اصول اختیار کیا گیا ہے۔
پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ نتیجہ خیز امن عمل کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرنا تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور واضح کیا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔
وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے افغانستان محمد اعجاز نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغان مسئلہ کا حل صرف سیاسی ہے، فوجی نہیں، افغانستان میں دیرپا امن کیلئے مخلصانہ کاوشیں اور اعتماد بنیاد ہیں، فیصلہ کیا جائے ،افغان دیرپا امن کیسے ممکن ہے؟
انہوں نے کہا کہ تمام افغان دھڑوں کو اختلافات ختم کرکے مفاہمت کا آغاز کرنا ہو گا، افغان امن کی منزل مشکل ہے، تمام فریقین کو لچک دکھانا ہو گی، افغان امن کے تمام فریقین اپنے مؤقف اور تحفظات کا واضح اظہار کریں، تمام فریق سخت مؤقف چھوڑ کر غیر مشروط مذاکرات یقینی بنائیں، تمام شراکت داروں کو مفاہمتی عمل کی نتیجہ خیزی کیلئے موزوں ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
محمد اعجاز نے مزید کہا کہ افغان قریبی ہمسایہ ممالک کے تحفظات کا تدراک کیا جائے، افغان مفاہمت کے گرد علاقائی، عالمی ضمانتوں کا حصار کھینچنا ہوگا، مذاکرات سے ہی نئے خیالات اور افغان امن کاوشیں آگے بڑھیں گی، افغان مسئلے کا سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقائق مدنظر رکھ کر حل نکالا جائے، افغان دھڑے اور عالمی برادری عمل کرے تو دیرپا امن کی منزل دور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یقین محکم، مخلصانہ کاوشوں سے منزل آسان، نتیجہ خیز اور مفید ہوں گی، افغان تنازع کے فریقوں کو ایک میز پر لانے کا اقدام احسن ہے، افغان دیرپا امن ،استحکام اور خوشحالی کیلئے روس کی کاوش کلیدی ہے، کانفرنس میں افغان حکومت، طالبان کی شرکت خوش آئند اور امید افزاء ہے۔
افغان حکومت نہیں امریکا سے بات کرنا چاہتے ہیں، افغان طالبان
کانفرنس میں شریک افغان طالبان کے ارکان نے مؤقف اپنایا کہ انہوں نے امن عمل کیلئے تنظیم کے شرائط سب کے سامنے رکھ چکے ہیں۔
افغان طالبان نے ایک بار پھر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ افغان حکومت کے بجائے امریکا سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان نے اعلیٰ ترین سیاسی نمائندے محمد عباس اسٹانکزئی نے کہا کہ 'افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے مرکزی مطالبے کے ساتھ ہم امریکا سے پرامن حل پر بات چیت کریں گے کیوں کہ ہم افغان حکومت کو غیر قانونی سمجھتے ہیں'۔
کانفرنس میں افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کی ڈپٹی چیئرپرسن اور اجلاس میں شریک واحد خاتون حبیبہ سرابی نے کہا کہ 'روس کو جنگ کا تجربہ حاصل ہے، اگر اسے امن کا تجربہ بھی حاصل ہوجاتا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے'۔
حبیبہ سرابی نے کہا کہ انہوں نے طالبان سے خواتین کے حقوق پر بات کی اور کہا کہ آپ مذاکرات میں اپنی طرف سے کسی خاتون کو کب لائیں گے جس پر وہ مسکرائے اور کہا کہ آپ کیوں ہماری نمائندگی نہیں کرتیں؟
اس حوالے سے طالبان وفد کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے کہا کہ 'ہم خواتین کو اسلام میں موجود تمام حقوق دینے کیلئے تیار ہیں یعنی تعلیم، ملازمت، جائیداد وغیرہ۔۔۔ ہمارا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ پردے کی پابندی کریں'۔
خیال رہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد روس اور طالبان کے درمیان کئی برسوں کی پس پردہ سفارتی رابطوں کا نتیجہ ہے۔
حالیہ برسوں میں طالبان نے امریکا، ترکی، سعودی عرب اور ایران سمیت مختلف ممالک سے بات کی ہے لیکن ان رابطوں کو خفیہ رکھا جاتا رہا ہے لیکن ماسکو میں افغان طالبان کا وفد سب کے سامنے مذاکرات میں شریک ہوا۔