پاکستان
Time 27 نومبر ، 2018

موقع ملا تو دوبارہ پاکستانی آرمی چیف سے جَپھی ضرور ڈالوں گا، سدھو


لاہور: کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے آنے والے سابق بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ضرور ہونے چاہییں، اگر موقع ملا تو دوبارہ بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جپھی ضرور ڈالوں گا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ خوشیاں ہی خوشیاں ہوں دامن میں جس کے کیوں نہ وہ خوشی سے دیوانہ ہو، یہ اس وعدے کا یقین ہے جو آج رنگ لے آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید تھی کہ یہ مثبت قدم ہے اور بارڈر بند کرنے سے ہمیں کیا ملا؟ اگر کوئی چیز آگے بڑھے تو امن و امان سے بڑھے گی اور امن خود ہی خوشحالی کو لے کر آتا ہے۔

سابق کرکٹر کا کہنا ہے کہ اگر ہم لوگوں کی زندگی میں بہتری لاسکیں تو یہ ایک بڑا قدم ہے اور منزل ان کو ملتی ہے جن کے سپنوں میں جان ہوتی ہے، صرف پروں سےکچھ نہیں ہوتا۔

نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ پنجاب میل ممبئی سے آتی تھی اور پنجاب تک چلتی تھی میں اس ریل کو یورپ تک جاتے دیکھنا چاہتا ہوں، مثبت سوچیں گے تو سب کچھ مثبت ہی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ملک اکیلے کچھ نہیں کرسکتا، دونوں کو آگے بڑھنے کیلئے قدم اٹھانا ہوگا، نیک نیتی ہی تھی جو آج یہ سب کچھ ہوا، اگر یہ سرحد کھل گئی تو 6 ماہ میں 6 سال کی ترقی ہوگی، یہاں سے سبزی، فروٹ اور سیمنٹ یورپ جاکر فروخت ہوگا۔

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ جپھی ڈالنے پر بھارت میں تنقید کے سوال پر سدھو کا کہنا تھا کہ اگر موقع ملا تو دوبارہ بھی آرمی چیف سے جپھی ضرور ڈالوں گا۔

کانگریس کے رہنما نے کہا کہ پانی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے، دریاؤں میں سیوریج اور گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ پھینکا جارہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرہ ہے، تمام دریاؤں کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان لوگوں کو ویزا جلد اور آسانی سے ملنا چاہیے، وعدے اور انڈے ٹوٹنے کیلئے ہوتے ہیں کوششیں کامیاب ہوتی ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں بھارتی وفد کی پاکستان آمد

قبل ازیں سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں بھارتی وفد واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچا جہاں پنجاب رینجرز کے حکام نے ان کا استقبال کیا۔

بھارتی سیاستدان و سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچے — فوٹو: اے ایف پی

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ عمران خان نے تین ماہ پہلے جو بیج بویا آج وہ پودا بن چکا ہے، اس سے زیادہ خوشی نہ مجھے ہوسکتی تھی اور نہ 12 کروڑ سکھ برادری کو، پاکستان کے وزیراعظم اور تمام افسران کا شکریہ ادا کرتاہوں۔

انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری امن کا راستہ ثابت ہوگا، امن کی راہداری کھلنے سے 60 سال کے بجائے 6 ماہ میں خوشحالی آسکتی ہے، یہ راہداری دونوں ممالک کی سرحدیں کھلنے کا باعث ہوگی۔

فوٹو: جیو نیوز اسکرین گریب

نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ مذہب کو سیاست کی نگاہ سے مت دیکھیں، خود پر تنقید کرنے والوں سے میرا انتقام یہی ہےکہ جاؤ معاف کیا۔

مہمان سدھو نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں بہت سے نامور فنکار اور کھلاڑی ہیں جنہیں سب پیار کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچ ہونے چاہییں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے اس موقع پر ایک شعر بھی پڑھا، گورونانک کے بول ہمیشہ یاد رکھیں گے، شیخ فرید کی نصیحت ہمیشہ یاد رکھیں گے، مریدوں کو جو مرشد کی طرف لے جائے، ہم اس امید کی کل بنیاد رکھیں گے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کل نارووال کے قریب کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے جب کہ تقریب میں بھارتی وفد سمیت پاکستان میں موجود سکھ یاتری بھی تقریب میں شرکت کریں گے۔

پاکستان کی تجویز پر نریندر مودی حکومت نے کرتار پور سرحد تک اپنی حدود میں راہداری بنانے کی منظوری دی، اس سے قبل پاکستان نے بھارت کو پیشکش کی تھی کہ سکھ یاتریوں کو بغیر کسی دشواری کرتارپور آنے کے لیے پاکستان راضی ہے، بھارت بھی اس کی اجازت دے۔ 

کرتارپور کی اہمیت و پس منظر

پاکستان کے ضلع نارووال میں واقع کرتار پور بھارتی سرحد سے متصل علاقہ ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور یہیں گردوارے میں ان کی قبر بھی ہے اور یہ علاقہ سکھوں کے نزدیک مقدس ہے۔

سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلو میٹر کا سفر طے کر کے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گردوارہ بند رہا۔

بھارتی سکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک 'درشن استھل' قائم کیا جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے اور پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔

مزید خبریں :