Time 24 دسمبر ، 2018
کاروبار

2018 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟

— رائٹرز فوٹو

2018 آیا اور گزر گیا، کچھ کاروباری افراد کے لیے اچھا اور کئی کے لیے برا رہا ۔لیکن معیشت کے لیے گزرا برس کیسا رہا؟ اس سوال کا جواب ہے آدھا سال اچھا اور آدھا برا۔

جون 18 20 میں ختم ہونے والے مالی سال جولائی 17 تا جون 18 میں شرح نمو ایک دھائی کی بلند ترین سطح پر رہی لیکن 2018 جولائی سے دسمبر کی کارکردگی نے پریشان کردیا ۔ گزرے برس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں معاشی صورت حال پر تبصرہ یوں کر سکتا ہوں کہ کس راہ گزر کو ہم گزار کر آئے ہیں۔

2018 کے آخری ایام میں پاکستانی روپے کی قدر دیکھیں تو انٹربینک تبادلہ مارکیٹ میں ڈالر لگ بھگ 139 روپے کو چھوتا ہوا بلندی کی نئی سطح پر ہے اور جب ڈالر مہنگا ہو تو سونے کی تیوری کیوں نہ چڑھے۔

سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔

سال کے آغاز پر ایک تولہ سونا تقریباً 54 ہزار روپے پر تھا لیکن سال کے اختتام تک اسے پر لگ گئے اور اس نے اونچی اڑان بھری ۔ اب یہ قریب 68 ہزار روپے فی تولہ ہو گیا۔

روپے کی قوت تبادلہ متاثر ہوئی ہے کیوں کہ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر جو سال کے آغاز پر 14 ارب ڈالر تھے وہ کم ہوکر 8ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔

سعودی عرب نے تین ارب ڈالر دینے کے ساتھ خام تیل کی خریداری کے ادائیگی میں تاخیر کی سہولت دی تو معیشت کی سانس کچھ بحال ہوئی۔ سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے ۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔

ساتھ ہی سال کے آخری ایام میں متحدہ عرب امارات نے بھی تین ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کروائی تو معیشت کی بحالی کے لیے امید کی کرن دکھائی دی تاہم یہ سب بھی شامل کرنے کے بعد سال کا اختتام تک زرمبادلہ کے زخائر 11 ارب ڈالر کی سطح تک ہی پہنچ سکے۔ ادھر یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ سال کے آغاز سے ہی اس میں کمی ہونے لگے گی گو کہ سعودی عرب سے مزید ایک ارب ڈالر ملیں گے لیکن ڈالر کا استعمال بیرونی ادائیگیوں کے لیے ہوتا ہے اور اگر برآمدات اور درآمدات کے فرق میں کمی نہیں آتی تو معیشت کی بحالی ایک خواب ہی رہے گی ۔

نومبر 2018 تک ہماری درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ رہیں جو برسوں سے ہو رہا ہے۔ اس فرق میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ آسان الفاظ میں بیان کریں تو ہماری آمدنی سے ہمارے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور 2018 نومبر تک ہم نے دنیا بھر سے 52 ارب ڈالر کی اشیا خریدیں ، جسے امپورٹ یا درآمدات کہتے ہیں ۔

اس کے برعکس ہم نے جو دنیا بھر میں فروخت کیا ، یعنی ہماری ایکسپورٹس یا برآمدات محض 23 ارب ڈالر رہیں اور اس میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بینک کے ذریعے بھیجے 19 ارب ڈالر ملا نے کے بعد بھی قریب پونے 17 ارب ڈالر کی کمی رہی ۔با الفاظ دیگر کمایا کم اور خرچہ زیادہ کیا۔ اس جمع خرچ کو کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ یا جاری مالی خسارہ کہتے ہیں ۔

بڑھتے اخراجات کے باعث نہ صرف خسارہ زیادہ ہوا بلکہ اس میں تیزی بھی آتی رہی۔ اس برس جی ڈی پی گروتھ یا معاشی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ چار فیصد رہی۔

گزرے سال اسٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھا کر اور حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹیز لگاکر صورت حال کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔آسان لفظوں میں بیرونی دنیا سے خریداری کے مد میں آنے والے اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے۔

ڈالر کی سطح کو قابو کرنے کے لیے مرکزی بینک کی مداخلت کی روش ترک کی اور ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ پر چھوڑ دیا۔

2018 میں شرح سود میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 4.25 فیصد بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا۔ 

اس کے علاوہ شرح سود میں اضافہ، پیٹرول کی قیمت کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنا جیسے اقدامات کیے گئے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ بیرون ملک سے خریداری کو جتنا ہو ممکن ہو کم کیا جائے یعنی بیرون ملک سے غیر ضروری اشیا ئے صرف خریدنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور مقامی سطح پر ہی تیار کی جانے والی اشیاء کو فروغ دیا جائے۔

ویسے یہ سوچ ہمارے یہاں ایک زمانے سے ہے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سوچ پنپ نہیں سکی ۔ اس کی ایک وجہ پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء کا غیر معیاری ہونا کے علاوہ صارفین کے بھروسہ نا ہونا بھی ہے۔ اس سوچ کو کم کرنے اور " میڈ ان پاکستان " پر عوام کا اعتماد بڑھانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

2018 میں شرح سود میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 4.25 فیصد بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا۔ سال کے دوران بیرونی سرمایہ کاری ایک ارب 90 کروڑ ڈالر رہی اور ملکی معیشت خسارے کا شکار رہی ۔

حکومت سال کے دس مہینوں میں 3710 ارب روپے قرض لے چکی ہے۔ 2018 کے اختتام پر صور ت حال یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں سمٹنے سے روزگار کے مواقع کم اور حکومت کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جس کی تکلیف سب محسوس کررہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2019 تک کچھ بہتری کی امید ہے ۔ 

مزید خبریں :