09 جنوری ، 2019
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہمارے گلے کا پھندہ بنے ہوئے ہیں، پتا نہیں اس وقت کون لوگ تھے جنہوں نے معاہدے کیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں سیکریٹری پاور ڈویژن، پاور کمپنیوں کے وکیل اور آئی پی پیز کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے سیکریٹری پاور سے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ہر آئی پی پی کو 159 ملین زائد ادائیگی کی گئی، آپ کپیسٹی پے منٹ کرتے رہے۔
جب کہ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عوام کے کروڑوں روپے دے دیے گئے، چاہے وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، دنیا بھر میں اس طرح کے معاہدے منسوخ کیے جارہے ہیں۔
سیکریٹری پاور نے عدالت کو بتایا کہ بجلی لیں یا نہ لیں کپیسٹی پے منٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کروڑوں اربوں روپے ایسے ہی ادا کردیتے ہیں، ہم یہ معاملہ نیب کو بھجوادیتے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس بجلی کا شارٹ فال تھا آپ نے سپلائی نہیں کی؟ اس پر پاور کمپنی کے وکیل نے کہا کہ این پی سی سی ڈیمانڈ بتاتی ہے، این پی سی سی بتاتی ہے تو آئی پی پی ایس بجلی بناتی ہیں۔
پاور کمپنی کے وکیل کے مؤقف پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہمارے گلے کا پھندہ بنے ہوئے ہیں، پتا نہیں اس وقت کون لوگ تھے جنہوں نے معاہدے کیے، بجلی دیں نہ دیں پیسے دیئے گئے، یہ لوگ ڈارلنگز تھے، اربوں کھربوں کا سرکلر ڈیٹ بن گیا، لوگوں کو بجلی نہیں ملی اور آئی پی پی کو پیسے ملتے رہے، نہ تمام لوگوں کو بجلی ملی نہ صنعتوں کو۔
چیف جسٹس پاکستان نے سیکریٹری پاور سے کہا کہ مجھے اس کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، آپ نے ایک پریزینٹیشن بنا کر رکھی ہوگی وہ ہی وزیر اعظم کو دیتے ہوں گے۔
عدالت نے وزیر بجلی عمر ایوب کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔