Time 02 اپریل ، 2019
پاکستان

جعلی اکاؤنٹس کیس میں 3 ریفرنسز تیار، آصف زرداری براہ راست ملزم نہیں

نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق تینوں ریفرنسز ہیڈکوارٹر بھجوا دیے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی نے تین ریفرنسز تیار کرلیے جن میں سابق صدر آصف علی زرداری براہ راست ملزم نامزد نہیں ہیں۔

ذرائع کے مطابق نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق 3 ریفرنسز تیار کر کے ہیڈ کوارٹر بھجوا دیے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں ریفرنسز میں نجم زمان، علی میمن اور دیگر ملزمان فہرست میں شامل ہیں اور تمام ملزمان پہلے سے نیب کی حراست میں ہیں۔

ذرائع کے مطابق نیب ریفرنسز میں نامزد افراد سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں تاہم آصف علی زرداری ریفرنسز میں براہ راست ملزم نہیں ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب ایگزیکٹو بورڈ احتساب عدالت میں ریفرنسز دائر کرنے کی منظوری دے گا اور اس کے لیے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی زیر صدارت ایگزیکٹو بورڈ اجلاس آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔

 یاد رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری عبوری ضمانت پر ہیں۔

منی لانڈرنگ/ جعلی اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر

منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔

تاہم بعدازاں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید خبریں :