سندھ میں پولیس اور حکومت آمنے سامنے

صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے نئے قوانین کا بل اسمبلی میں پیش کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

حکومت سندھ اور محکمہ پولیس کے درمیان ایک مرتبہ پھر اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے نئے قوانین کا بل اسمبلی میں پیش کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس میں پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرری کے اختیارات کو آئی جی سندھ سے الگ کرنے کی شق بھی شامل ہے۔

نئے پولیس ایکٹ 2019 میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا اختیار اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے پاس ہوگا جس کے تحت ہر پولیس افسر کو ایک مخصوص مدت کے لئے تعیناتی دی جائے گی اور تعیناتی کی مدت کے دوران ٹرانسفر کا فیصلہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کرے گی۔

سندھ حکومت اور پولیس کے درمیان دوری کی جھلک اس وقت سامنے آئی جب وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ ہفتے ایک تقریر کے دوران کہا کہ 'میں اس الجھن میں ہوں کہ پولیس میرے ماتحت ہے یا وفاقی حکومت کے'۔

وزیراعلیٰ نے کراچی پولیس افسران کی تربیتی ورکشاپ پر بھی تنقید کی اور کہا تمام پولیس افسران یہاں بیٹھے ہیں شکر ہے باہر امن قائم ہے، یہی نہیں انہوں نے آئی جی سندھ کلیم امام کو براہ راست مخاطب کیا اور کہا کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں جا کر وہاں بھی توجہ دیں۔

مشیر اطلاعات سندھ مرتضی وہاب بھی اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ قانون سازی ممبران اسمبلی کا کام ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پولیس کے کچھ افسران نے پالیسی بنانا شروع کردی ہے اور آئی جی سندھ پولیسنگ کی بجائے پالیسی بنانے کا اختیار لینا چاہتے ہیں۔

حکومت سندھ کی پولیس حکام سے ناراضگی کی وجہ کیا ہے؟ کچھ جانچ کے بعد پتہ چلا کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ صوبے کے بعض اضلاع میں اپنی مرضی کے پولیس افسران کی تعیناتی چاہتے ہیں لیکن گزشتہ کئی ماہ سے انہیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہی اور اس کے لئے ان سے 'اوپر' سے جوابدہی کی جارہی ہے۔

دوسری جانب صوبے کے بعض اضلاع میں بااثر افراد کی مختلف مقدمات میں نامزدگی اور گرفتاری بھی وجہ تنازعہ ہے، پولیس کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا بھی پولیس حکام سے اختلاف کا باعث ہوسکتا ہے۔

اس سے قبل بھی سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کے دور میں صوبائی حکومت اور پولیس فورس کے درمیان کشمکش سامنے آئی تھی اور اُن کے تبادلے کے لیے کئی مرتبہ زور لگایا گیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دباؤ کسی حد تک تھم گیا۔

اس سارے معاملے میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سابق آئی جی سندھ کو کسی حد تک سپورٹ بھی کیا لیکن قیادت کے دباؤ پر انہیں اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے لیے وفاق سے رجوع کرنا پڑا۔

آئی جی سندھ کلیم امام کی سندھ میں تعیناتی کے بعد اب ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال ہے، انہوں نے اپنے پیشرو  اے ڈی خواجہ کے شروع کیے گئے کئی اصلاحاتی اقدامات کو تکمیل تک پہنچایا جبکہ صوبے میں پولیس کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

سید کلیم امام پولیس گروپ کے سینئر آفیسر ہیں، انہوں نے کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے اور ان کی شہرت اچھے قابل افسر کی ہے اور وہ یہ بھی باور کرا چکے ہیں کہ وہ وفاق سے تعینات ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

سندھ پولیس میں کمانڈ سنبھالنے کے بعد سے ان کی زیادہ توجہ جدید خطوط پر پولیس اصلاحات، سیاسی مداخلت ختم کرنا، جرائم پیشہ افراد سے پولیس کو پاک کرنا، پولیس کے ویلفئیر منصوبوں کو بہتر طور پر چلانا اور عوام دوست پولیسنگ کو فروغ دینے کی طرف رہی ہے۔

پولیس فورس میں یہ بات عام ہے کہ آئی جی سندھ کرپٹ آفیسر کو کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ تین سال تک عہدے سے ہٹانے کی ہدایت دیتے ہیں، کلیم امام یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پولیس کے کام میں مداخلت کا عمل اب بھی موجود ہے اور کسی افسر کو سیاسی دباؤ پر عہدے سے ہٹانے کی بجائے وہ خود عہدہ چھوڑنا پسند کریں گے۔

پولیس میں اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایت پر دو سابق آئی جیز اور پانچ موجودہ آئی جیز پر مشتمل ایک کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کر کے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دی ہیں لیکن دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے پولیس ایکٹ 2019 لانے کا بھی عندیہ دیا جارہا ہے۔ 

وزیراعلی سید مراد علی شاہ سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کے معاملے پر کسی حد تک حمایت کرتے رہے لیکن اس مرتبہ انہیں پھر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا ہے، اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن پولیس کو غیر جانبدار، سیاسی دباؤ سے پاک اور عوام دوست بنانا انتہائی ضروری ہے تاکہ عام آدمی کو تحفظ حاصل ہوسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔