17 اپریل ، 2019
آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے سندھ کو انتظامی طور پر تین ریجن میں تقسیم کرنے کے بعد افسران میں اختیارات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز آف دی ریکارڈ اختیارات میں ایڈیشنل آئی جی کے اختیارات کا شکوہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن آن دی ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اس کی وجہ پروٹوکول کا ہونا بھی ہوسکتا ہے اور اب اختیارات کی یہ جنگ سوشل میڈیا میں موضوع بحث ہے تاہم ایڈیشنل آئی جی سندھ سرور جمالی نے اس حوالے سے جیو نیوز سے تفصیلی گفتگو کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز کے اختیارات اُن کے پاس ہیں۔
سرور جمالی نے کہا 'میں ڈی آئی جی کے نہیں آئی جی سندھ کے اختیارات لے کر بیٹھا ہوں، جو افسر کام نہیں کرے گا اور کارکردگی سے مطمئن نہ ہوئے تو وہ ہماری ٹیم میں نہیں ہوگا'۔
ایڈیشنل آئی جی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز کے اختیارات استعمال کررہے ہیں، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کے جو اختیارات پولیس رولز اور پولیس ایکٹ میں ہیں وہ استعمال کیے جارہے ہیں۔
سرور جمالی نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ڈی آئی جی کے کام میں مداخلت کرنا پڑے تو اس کے لیے مشاورت کروں گا، ایڈیشنل آئی جی کا کام سپروائزنگ کا ہے لیکن 551 سی آر پی سی مجھے اختیار دیتا ہے کہ میں چھاپے ماروں، یہ کام ایس ایس پی، متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں حیدرآباد ریجن کا 'ایس ایچ او' ہوں تو آئی جی سندھ کلیم امام پورے صوبے کے 'ایس ایچ او' ہیں، جو کام ہم کررہے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام سرور جمالی نے گفتگو کے دوران ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا، جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
حیدرآباد میرپور خاص اور نوابشاہ ریجن میں ایسے ایس ایس پیز ہیں جو پولیس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں؟ اس سوال پر اے آئی جی سندھ نے کہا کہ افسران کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کررہے ہیں، اگر شبہ ہوگا کہ کوئی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تو وہ ہماری ٹیم میں شامل نہیں ہوگا۔
تھانے کے ایس ایچ اوز کی تعیناتی اور کارکردگی سے متعلق سرور جمالی نے کہا کہ کسی بھی ایس ایچ او کو چھ ماہ یا ایک سال تک کام کرنے دیا جائے اور اگر وہ کام نہ کرے تو اس سے اچھا افسر لے آیا جائے۔
یاد رہے کہ ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام سرور جمالی رواں سال کے آخر میں اپنی مدمت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔