21 مئی ، 2019
اسلام آباد: پولیس نے شہزاد ٹاؤن میں 10 سالہ بچی سے مبینہ زیادتی اور قتل کے تین ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
خاندانی ذرائع کے مطابق 15 مئی کو لاپتہ ہونے والی خیبرپختون خوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ بچی اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھی لیکن پولیس نے گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے میں 4 دن لگائے۔
دس سال کی بچی فرشتہ کی لاش گزشتہ روز جنگل سے ملی جسے پوسٹ مارٹم کےلیے پولی کلینک اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں مرکزی ملزم بھی شامل ہے، گرفتار ملزمان کا تعلق افغانستان سے ہے۔
مبینہ زیادتی اور قتل کے خلاف مقتول بچی کے لواحقین لاش ترامڑی چوک پر رکھ کر احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ بچی سے زیادتی اور قتل کی ذمہ دار پولیس ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس نے 5 دن تک بچی کو مرضی سے فرار ہونے کا الزام لگا کر رپورٹ درج نہیں کی۔
مقتولہ کے بھائی کا کہنا تھا کہ گمشدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کروانے گئے تو ہم سے تھانے میں کام لیا جاتا تھا، ایس ایچ او اور تھانے کا مکمل عملہ معطل ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔
مظاہرین سے مذاکرات کے لیے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، معاون خصوصی علی اعوان مظاہرین سے مذاکرت کر رہے تھے جو کامیاب ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ غفلت برتنے پر ایس ایچ او تھانا شہزاد ٹاؤن کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا، احتجاج ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاون اور دیگر اہلکاروں کے خلاف اندراج مقدمہ کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا۔
بعد ازاں دس سال کی بچی فرشتہ کی نماز جنازہ ترامڑی چوک پر ادا کر دی گئی۔
ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید نے ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاؤن کو معطل کرکے انکوائری ایس پی رورل عمر خان کے سپرد کر دی اور انہیں فوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق بچی کے قاتل کا سراغ لگا لیا ہے،جلد کامیابی مل جائے گی جب کہ ایس ایچ او کومعطل کرنے کا مقصد شفاف انکوائری کرانا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بچی کے لواحقین سے ملاقات کی، ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسد قیصر کہنا تھا کہ واقعے کی ہر سطح پر تحقیقات ہوں گی اور جلد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کل تمام متعلقہ حکام کو بلایا ہے، بچی کے والدین کو بھی بلائیں گے، والدین کے تمام تحفظات دور کریں گے اور بچی کو ہر صورت انصاف دینا ہے۔