28 مئی ، 2019
راولپنڈی میں دن دیہاڑے پولیس اہلکاروں کی لڑکی سے مبینہ زیادتی کے کیس میں ڈرامائی پیش رفت سامنے آئی ہے اور متاثرہ لڑکی اپنے ابتدائی بیان سے ہی منحرف ہو گئی۔
15 مئی کو راولپنڈی میں ایک طالبہ کو مبینہ طور پر 3 پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد نے اجتماعی کا نشانہ بنایا تھا اور میڈیکل رپورٹ میں بھی طالبہ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی۔
بعد ازاں متاثرہ طالبہ نے سی پی او کو ایک درخواست دی جس میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کا ذکر کیا گیا اور زین نامی ایک پولیس اہلکار کا بھی بتایا۔
مذکورہ درخواست کے بعد سی پی او کے حکم پر چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا لیکن اب متاثرہ طالبہ نے 164 کے تحت دوبارہ بیان کے لیے علاقہ مجسٹریٹ روات کو درخواست دی ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ اس کے 24 مئی کو دیے گئے بیان کو منسوخ تصور کیا جائے اور یہ کہ وہ اپنا بیان دوبارہ ریکارڈ کرانا چاہتی ہے۔
لڑکی کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان اس واقعہ میں ملوث نہیں ہیں، ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے ملزمان کے نام نہیں جانتی تھی، اس نے ایف آئی آرمیں پولیس اوراین جی اوز کے فوکل پرسنز کے اکسانے پر ملزمان نامزد کیے تھے۔
اس حوالے سے قانونی ماہر راجہ نذیر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ لڑکی قانونی طور پر اپنا بیان تبدیل کر سکتی ہے لیکن اس حوالے سے فیصلہ عدالت کرے گی کہ یہ بیان دباؤ کی وجہ سے تو تبدیل نہیں کیا گیا۔