Time 06 جولائی ، 2019
کھیل

92 میں یہ نہیں ہوا تھا!

دنیائے کرکٹ کے نچلے درجوں پر آنے والی ہماری ٹیم نے انگلینڈ، جنوبی افریقا اور نیوزی لینڈ کو ہرا کر شائقین کی دلچسپی کسی طرح ٹورنامنٹ میں برقرار رکھی جو کہ قابل تعریف ہے — فوٹو: فائل 

آخرکار سن 1992 کے ورلڈ کپ سے مماثلتیں ساتھ چھوڑ گئیں اور ہم 2019 کے ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے۔

بڑے بوڑھوں نے تو ویسٹ انڈیز سے پہلے میچ میں ہار کے وقت ہی اشارے کنایوں میں کہہ دیا تھا کہ ’پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آگئے ہیں‘ لیکن لڑکے بالے پاکستان کے ہر میچ سے قبل امیدوں کے دیئے جلاکر ’سری لنکا میچ کا بارش والا پوائنٹ سیمی فائنل میں لے جائے گا‘ کی رٹ لگائے جاتے تھے لیکن پھر وہی ہوا، بقول شخصے ٹیم کی نیاعین وہاں ڈوبی جہاں ’رن ریٹ‘ کم تھا۔

ورلڈ کپ پر ایک پاکستانی کی حیثیت سے نظر ڈالی جائے تو اس ٹورنامنٹ سے قبل سے ہی آثار کچھ اچھے نہ تھے، مسلسل سیریز میں ہار، وائٹ واش، مختلف کمبی نیشن آزمانے کے دعوے، اہم کھلاڑیوں کا ٹیم میں ہی نہ ہونا بعد ازاں واپس لایا جانا اور پھر انجریز۔

چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی کے بعد ٹیم سے امیدیں تو لوگوں نے بہت لگا رکھی تھیں لیکن دل بھی ہر میچ سے قبل زور زور سے دھڑک رہا تھا، ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم سے بری طرح ہار اور آسٹریلیا کے خلاف میچ میں مشکل وقت میں واپس آکر، اچھی پوزیشن سے میچ گنوانا ٹیم کو لے ڈوبا۔

بھارت کے خلاف ہم حسب سابق آؤٹ کلاس کر دیے گئے، سری لنکا سے میچ بارش کی نذر ہوا لیکن دنیائے کرکٹ کے نچلے درجوں پر آنے والی ہماری ٹیم نے انگلینڈ، جنوبی افریقا اور نیوزی لینڈ کو ہرا کر شائقین کی دلچسپی کسی طرح ٹورنامنٹ میں برقرار رکھی جو کہ قابل تعریف ہے۔

2018 کے آغاز سے ورلڈ کپ سے پہلے تک کے دورانیے پر نظر ڈالی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ 33 کھیلے گئے میچوں میں سے ہم صرف 10 جیت سکے، 21 میں ہم نے ہار کا منہ دیکھا تھا اور دو میچوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

ہم انگلینڈ، آسٹریلیا اور انڈیا سے اس دوران ایک بھی میچ نہ جیت سکے جب کہ جنوبی افریقا سے کھیلے گئے 5 میں سے 3 میچ ہم ہارے اور 2 جیتے، نیوزی لینڈ سے کھیلے گئے 8 میچوں میں سے صرف ایک میں فتح پائی یعنی ٹورنامنٹ میں آنے سے قبل صورتحال نہایت خراب تھی اور ورلڈ کپ کا امتحان بہت کڑا۔

اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سیمی فائنل نہ سہی، ان ٹیموں میں پانچویں پوزیشن بھی غنیمت ہے۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو بابر اعظم 67 کی اوسط اور 87 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 474 رنز بنا کر سب سے منفرد نظر آتے ہیں۔

پورے ٹورنامنٹ میں کمنٹیٹر اور شائقین اس نوجوان کھلاڑی کی بیٹنگ کے گن گاتے رہے اور ان کے کھیلنے کے انداز کی تعریف کرتے رہے، وہیں 23 کی اوسط کے ساتھ 186 رنز بنانے والے فخر نے سب کو بہت مایوس کیا۔

امام الحق نے 38کی اوسط کے ساتھ 305 رنز ضرور بنائے لیکن انھوں نے سیٹ ہو کر وکٹیں گنوانے کا سلسلہ جاری رکھا، بطور سینیئر کھلاڑی حفیظ کے 253رنز 31 کی اوسط سے آئے لیکن اہم مواقعوں پر انہوں نے پارٹ ٹائم باؤلرز کواپنی وکٹ دی جس سے ٹیم پر دباؤ میں اضافہ ہی ہوا۔

حارث سہیل نے گو صرف 198 رنز بنائے لیکن ان کی شاندار فارم کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور لگا کہ انہیں مزید میچز میں موقع دیاجانا چاہئے تھا۔ 54 کی اوسط سے عماد وسیم کے 162 رنز یوں تو بہت کم لگ رہے ہیں لیکن انہوں نے نازک صورتحال میں ذمہ دارانہ بیٹنگ کی اور بطور آل راؤنڈر ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے۔

حارث سہیل اور عماد کا اسٹرائیک ریٹ بالترتیب 94 اور 118 رہا جس سے ان کی بیٹنگ کی تیزی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

سرفراز نے اس ٹورنامنٹ میں 143 رنز بنائے لیکن شروع کے میچز ہارنے کے بعد جس طرح کی تنقید حوصلے سے سہی اور پھر ٹیم میں گروہ بندی جیسی خبروں کے بعد جس طرح ٹیم ٹورنامنٹ میں واپس آئی، اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

یہ ضرور کہنا ہوگا کہ سرفراز میں کپتانی کے معاملے میں یکسوئی، تسلسل اور بہتری کی ضرورت ہے اور پی سی بی کو اس سلسلے میں بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

بولنگ میں محمد عامر اور شاہین شاہ آفریدی نے مجموعی طور پر بے حد متاثر کن کارکردگی دکھائی۔ ورلڈ کپ کی ٹیم میں عامر کی شمولیت پر ہر طرف سے سوالات اٹھائے گئے لیکن انہوں نے پہلے ہی میچ سے اپنے ناقدین کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کردیا۔

عامر نے 25 کے اسٹرائیک ریٹ اور 21 کی اوسط سے 17 وکٹیں لیں۔ دوسری جانب ’بوائے ونڈر‘ شاہین شاہ آفریدی نے 17 کے اسٹرائیک ریٹ اور 14 کی اوسط سے 16 وکٹیں حاصل کرکے ورلڈ کپ کے اسٹیج پر دنیائے کرکٹ میں اپنی بھرپور آمد کا اعلان کردیا۔

دنیا بھر کے شائقین اور تجزیہ کار انہیں اس نسل کا سب سے باصلاحیت بولر قرار دے رہے ہیں جو کہ کسی اعزاز سے کم نہیں، شاداب خان 35 کی اوسط سے 9 وکٹیں لے سکے جب کہ وہاب ریاض نے 36 کی اوسط سے 11 وکٹیں لیں۔

یہ یاددہانی بھی ضروری ہے کہ دونوں نے مختلف مواقعوں پر اپنی بیٹنگ سے بھی ٹیم کو فائدہ پہنچایا جس سے ان کے مداحوں نے کچھ سکون کا سانس لیا، عماد اور حفیظ نے بھی 2 ،2وکٹیں حاصل کیں۔

شعیب ملک اس ٹورنامنٹ میں کافی بجھے بجھے نظر آئے اور بطور سینیئر کسی شعبے میں خاص کارکردگی نہ دکھا سکے یوں ون ڈے کرکٹ کے اپنے آخری ٹورنامنٹ میں وہ کوئی خاص اثر نہ ڈال سکے۔

ٹیم منیجمنٹ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پلاننگ کے شعبے میں ہم مجموعی طور پر کامیاب نظر نہیں آئے۔ ٹورنامنٹ سے پہلے اور اس کے دوران ہم مختلف کامبی نیشن آزماتے رہے اور مقابلے کے آخری میچوں میں کارکردگی میں کچھ تسلسل آیا جب تک شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ 

رن ریٹ میں پیچھے رہ جانے کے حوالے سے بھی ہم نے آنے والے میچز میں کوئی خاص تیزی نہ دکھائی جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔ فیلڈنگ میں ہم نے کچھ میچز میں ہی کیچز گرا دیے تھے جس کے بعد گنتی کی راقم میں ہمت نہ رہی۔

بیٹنگ میں اب بھی اگر ہمارا ٹارگٹ 250 کے آس پاس یا اس سے زائد ہو تو میچ دیکھنے کی بجائے مداحوں کی اکثریت مصلا سنبھال لیتی ہے (یقین نہ آئے تو افغانستان والا میچ ضرور دیکھیے گا)۔ بیٹنگ میں چونکہ ہمارا جارحانہ اوپنر عموماً جلدی واپس پویلین پہنچ جاتا ہے اس لیے ہمارا آغاز محتاط ہوتا ہے جس کا اثر آنے والے بیٹسمیوں پر بھی پڑتا ہے۔

بیٹنگ آرڈر میں بھی کوئی خاص تسلسل نظر نہیں آتا، بولنگ یوں تو ہمارا مضبوط پوائنٹ ہے لیکن نجانے حسن علی جیسے بولر اپنی گزشتہ فارم میں کب واپس آئیں گے۔

دیگر بولر بھی کبھی کبھی ایک دم ہی پٹڑی سے اتر جاتے ہیں اور شائقین کو حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذہنی طور پر اب بھی ہمارے کھلاڑی اس سطح پر نظر نہیں آتے جہاں اس ٹورنامنٹ کی سیمی فائنلسٹ ٹیموں کے کھلاڑی ہیں۔

دیگر ٹیموں کی کارکردگی میں تسلسل، فٹنس اور مشکل مواقعوں پر حواس قابو میں کرکے صورتحال اپنی طرف موڑنے کی صلاحیت ہم سے کہیں بہتر ہے، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم اپنی ایک یا 2 سالہ کارکردگی سے بہتر نظر آئے لیکن اب بھی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کے شعبوں میں سوالات موجود ہیں۔

ان کے جوابات یقیناً صرف ایک ٹورنامنٹ میں بہتر یا ابتر کارکردگی سے مشروط نہیں، ان کے لیے ہمیں اپنی ڈومیسٹک کرکٹ، کوچنگ، فٹنس پیٹرن، سلیکشن اور دیگر معاملات کو کھنگالنا ہوگا بصورت دیگر ہم اگلے ورلڈ کپ میں بھی شاید اسی جگہ کھڑے نظر آئیں گے۔

مزید خبریں :