پاکستان
Time 17 جولائی ، 2019

جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے والا مرکزی ملزم میاں طارق گرفتار


اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج ارشد ملک کی مبینہ قابل اعتراض ویڈیو بنانے والے مرکزی ملزم میاں طارق کو گرفتار کرلیا۔

ایف آئی اے کے مطابق میاں طارق کی گرفتاری ایف آئی اے اسلام آباد کے سائبر کرائم ونگ نے کی، ملزم کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون سےگرفتار کیا گیا اور اس کے گھر سے ویڈیو بھی برآمد کی گئی جس کا فرانزک کرالیا گیا ہے۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی میں میاں طارق کا بھی ذکر کیا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ملزم میاں طارق محمود کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ دبئی فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔

ایف آئی  اے نے ملزم کو عدالت میں پیش کیا جہاں جج نے ملزم سے سوال کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟ اس پر ملزم میاں طارق نے الزام لگایا کہ اسے گرفتار کرکے تشدد کیا گیا جس سے اس کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔

ایف آئی اے نے ملزم سے تفتیش کے لیے عدالت سے اس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزم میاں طارق محمود کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

عدالت نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو ہدایت کی ہے کہ ملزم کو 19 جولائی کو میڈیکل رپورٹ کے ساتھ پیش کریں۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

مزید خبریں :