کھیل
Time 01 اگست ، 2019

پاکستان کرکٹ بورڈ اب 5 سالہ وژن کے مطابق چلے گا: وسیم خان

فائل فوٹو: وسیم خان ایم ڈی پی سی بی

لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایم ڈی وسیم خان نے کہا ہےکہ پی سی بی میں پروفیشنل سسٹم لارہے ہیں اور اب بورڈ پانچ سالہ وژن کے مطابق چلے گا۔

سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کا نیا اسٹرکچر قومی کھلاڑیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔ 

اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر میں 6 ٹیموں میں شامل 66 بہترین کھلاڑی مدمقابل آئیں گے، جہاں فرسٹ اور سیکنڈ الیون کی طرز پر کرکٹ کھیلی جائے گی، انٹر سٹی اور کلب کرکٹ کے مقابلے بھی نئے ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر کا حصہ ہوں گے۔ 

ایم ڈی پی سی بی وسیم خان نے کہا کہ اس بار بہترین پچز کی تیاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، اب کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک اور انٹر سٹی کرکٹ کھیلنے کا معاضہ دیا جائے گا، ملک بھر میں 6 ہائی پرفارمنس سینٹر قائم کررہے ہیں جہاں کھلاڑیوں کو سائیکالوجسٹ، فزیو، ٹرینر اور نیوٹریشنسٹ موجود ہوں گے۔

وسیم خان کا کہنا تھا کہ ہم نئی سلیکشن کمیٹی کے لیے دو ماڈلز پر غور کررہے ہیں، پہلا یہ کہ ایک چیف سلیکٹر اور 3 اراکین جب کہ دوسرا یہ کہ ایک چیف سلیکٹر کا انتخاب ہم کریں اور پھر وہ 6 صوبائی ٹیموں کے کوچز سے مشاورت کرے، یہاں ہر کوچ اپنی مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں پر مشتمل رپورٹ چیف سلیکٹر کو دے جس کی بنیاد پر قومی کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا جائے۔

ایم ڈی پی سی بی نے کہا کہ نیا ڈومیسٹک کرکٹ مختلف مراحل میں تقسیم ہوگا، ستمبر سے شروع ہونے والے قائد اعظم ٹرافی کے ابتدائی چار راؤنڈز کے بعد نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کرایا جائے گا، نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے بعد ایک بار پھر قائد اعظم ٹرافی کے میچز بحال ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم ٹرافی کے چار راؤنڈز پہلے کرانے کا مقصد قومی سلیکٹرز کو طویل فارمیٹ کے کھلاڑیوں کو سری لنکا سے دو ٹیسٹ کی سیریز سے قبل جانچنے کا موقع دینا ہے اور پھر وقفے میں ٹی ٹوئنٹی کا مقصد آسٹریلیا کے خلاف سیریز اور پی ایس ایل کے لیے اسکواڈ تیار کرنا ہے۔ 

وسیم خان نے کہا کہ ہر کھلاڑی کو قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے قومی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا ہوگی، اسی طرح کوچز اور امپائرز کو بیرون ملک کورسز کرنے بھیجیں گے۔

ایم ڈی پی سی بی کا کہنا تھا کہ خواتین کرکٹ کی بہتری پر کام کرنا چاہتے ہیں، ہم نے خواتین کرکٹرز کو بزنس کلاس دی، ان کی مراعات بڑھائیں، مگر اب بھی کھلاڑیوں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس خواتین کرکٹ کا مضبوط اسٹرکچر نہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ خواتین کوچز کو تیار کریں۔ 

وسیم خان نے کہاکہ ایم سی سی اجلاس میں شرکت کے لیے آئندہ ہفتے میں انگلینڈ جارہا ہوں جب کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے نمائندگان جلد پاکستان کا دورہ کررہے ہیں، سری لنکا کرکٹ بورڈ کا سیکیورٹی وفد بھی رواں ماہ پاکستان آئے گا، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں پاکستان کی پذیرائی ہورہی ہے، پاکستان کے نمائندگان آئی سی سی کی مختلف کمیٹیوں کا حصہ بن رہے ہیں اور اس سب کے لیے ہم نے آخری 6 ماہ بہت محنت کی ہے۔

900 ملازمین کی بورڈ میں موجودگی سے متعلق سوال پر ایم ڈی پی سی بی وسیم خان کا کہنا تھا کہ ہیڈ کوارٹر میں صرف 150 ملازمین کام کرتے ہیں جب کہ زیادہ تر ملازمین مالی، گراؤنڈ اسٹاف یا وہ ملازمین ہیں جو پس منظر پر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی احسان مانی بورڈ میں احتساب کا عمل چاہتے ہیں، ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو چلانے کے لیے 5 سالہ ویژن ترتیب دے دیا ہے، جس کے مطابق بورڈ میں کام کرنے والا ہر شخص جوابدہ ہوگا، ماضی میں پی سی بی ون مین شو کی طرح چلایا جارہا تھا، چیئرمین کے پاس سارے اختیارات ہوتے تھے  مگر احسان مانی نے اپنے اختیارات کم کردیے، بار بورڈ میں ا یک چیف ایگزیکٹو ہے،۔ ہم نے بورڈ میں سب کی ذمہ داریاں واضح کردی ہیں۔

وسیم خان نے کہا کہ کرکٹ کی بہتری کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹ کمیٹی قائم کی ہے، میرے، و سیم اکرم، مصباح الحق اور عروج ممتاز پر مشتمل کمیٹی کو متواتر اجلاس کرنے ہوں گے تاکہ کرکٹ کی بہتری کے لیے سفارشات تیار کرکے چیئرمین پی سی بی کو بھجواسکیں۔ 

ایم ڈی کا کہنا تھاکہ ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے، ہم پاکستان سپر لیگ کا مکمل انعقاد پاکستان میں کروانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، اس سلسلے میں ہم انفراسٹرکچر تیار کررہے ہیں، قومی ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری کے لیے بھی انفراسٹرکچر پر کام کرنا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ میرے لیے بہت سے چیلنج ہے، کرکٹ کی ترقی کے لیے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرناہوگا، جانتا ہوں لوگ تبدیلی سےعدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں اور میرے کام کی بجائے مجھ سے تنخواہ کا سوال کرتے ہیں، میرے اہلخانہ رواں ہفتے یہاں آرہے ہیں مگر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں کام کرنا میرے لیے عزت کا باعث ہے۔

مزید خبریں :