17 اگست ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنسز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 7 اگست 2019 کو کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں وکلاء پینل کے رکن جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کے ذریعے جمعہ کے روز آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی درخواست میں صدر پاکستان کو ان کے پرنسپل سیکریٹری، وفاق پاکستان کو سیکریٹری قانون جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اس کے سیکریٹری کے ذریعے فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس نمبر 1/2019اور 4227/2019 بدنیتی سے دائر کئے گئے ہیں جن کی کوئی قانونی بنیاد ہی نہیں، اس لئے انہیں امتیازی اور روز اول سے ہی غلط قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ یہ ریفرنسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں قلمبند کئے گئے فیصلے جس کی وجہ سے حکومت اور بعض دیکھے اور ان دیکھے حکومتی اداروں میں تشویش پیدا ہوئی تھی کے، جواب میں دائر کیے گیے ہیں۔
پٹیشن میں فیض آباد دھرنے میں ملوث لوگوں کے بارے میں بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادارے اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتے، حکومت کو موزوں قانون سازی سے ان کے مینڈیٹ کا تعین کرنا چاہیے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ اسی فیصلے میں ہی فاضل عدالت نے وزارت دفاع اور اس کے متعلقہ اداروں کے سربراہان کو اپنے ماتحت افسران کی جانب سے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ دیکھے اور ان دیکھے ہاتھوں کی جانب سے دائر کئے گئے یہ ریفرنسز عدلیہ کی آزادی کو پابہ زنجیر کرنے کی بدنیتی پر مبنی کوشش ہیں، یہ نام نہاد ریفرنسز یا معلومات بزدل اور غیر مجاز نگرانی یا تفتیش ہی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں، خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور ان کے خاندان کی نگرانی کی اجازت دینا، ان ججوں کو بلیک میل کرنے اور دباؤ ڈالنے کا لائسنس دینے کے مترادف ہوگا، یہ عمل عدلیہ کی آزادی کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ ایسٹس ریکوری یونٹ اور اس کے چیئرمین کو تحقیقات کروانے یا ایف آئی اے اور ایف بی آر کے ساتھ خفیہ ڈیٹا شیئر کرنے کا کواختیار ہی نہیں ہے، درخواست گزار نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور صدر نے آئین کے آرٹیکل 209کے مطابق اپنی رائے نہیں دی ہے، جب کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 116کے تحت کوئی شخص بھی اپنی بیوی یا بچوں کے وہ اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہی نہیں ہے جو اس نے اپنی رقم سے نہ خریدے ہوں، یا وہ بے نامی نہ ہوں۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ ریفرنس کے متن کے کچھ حصوں کا عام ہونا بھی بدنیتی ظاہر کرتا ہے، درخواست گزار نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل یا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس انکوائری کے دائرہ کار کو بڑھانے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اضافی حقائق اور دستاویزات کا شوکاز نوٹس کے اجراء اور اس کے جوا ب سے قبل جائزہ لینا آئین کے آرٹیکل 209 اور 10 اے سے بھی متصادم ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کی جانب سے صدر کو لکھے گئے خط پر شوکازنوٹس کا اجراء بھی ایک جج کی خود مختاری کے خلاف ہے کیونکہ ایسے ضابطے صرف سرکاری افسران پر لاگو ہوتے ہیں نہ کہ کسی جج پر ، درخواست گزار نے کہا ہے کہ ایک جج کی خود مختاری کو نہ صرف انتظامیہ کی تجاوزات بلکہ اس کے ساتھی ججوں بشمول سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی تحفظ دیا جانا چاہیے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ جس انداز میں یہ ریفرنس دائر ہوئے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 25 سے متصادم اور بدنیتی پر مبنی ہونے کا مکمل تاثر دیتے ہیں جب کہ دوسرا شوکاز نوٹس تو سپریم جوڈیشل کونسل کے پروسیجر آف انکوائری 2005 کے مطابق ہی نہیں ہے، وزیر اعظم کی ریفرنس بھیجنے کی ایڈوائس اور صدر کی جانب سے اسے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوانے کی رائے بھی بدنیتی پر مبنی ہے درخواست گزار نے دونوں ریفرنسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے فاضل عدالت سے اس مقدمہ کے حتمی فیصلے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو روکنے اور کیس کی سماعت کرکے انہیں امتیازی بدنیتی پر مبنی اور روز اول سے ہی غلط قرار دیتے ہوئے کالعدم قراردینے کی استدعا کی ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پریس ریلیز کے مطابق بلوچستان سے سپریم کورٹ کے واحد معزز جج اور آئندہ چند سال بعد بننے والے، چیف جسٹس آف پاکستان، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں بدنیتی سے یہ صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے، درخواست گزار و سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے اس مقصد کے لئے تشکیل دے گئے وکلاء پینل کے ایک رکن جسٹس ریٹائرڈ ، رشید اے رضوی کے توسط جمعہ کے روز سپریم کورٹ کی پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں آئینی درخواست دائر کردی ہے جس کی پیروی سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدور، حامد خان، علی احمد کرد، قاضی محمد انور ،یاسین آزاد، کامران مرتضی، رشید اے رضوی اور پیر کلیم احمد خورشید کریں گے۔