Time 21 اگست ، 2019
بلاگ

سیلف ہیلپ کی کتابوں کو آگ لگا دیں

فوٹو: فائل

جس طرح ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد شہر کے تمام کتب خانے نذر آتش کر دیے تھے اور خلیفہ ہارون الرشید کے قائم کردہ عظیم الشان دارالحکمہ کو بھی آگ لگا دی تھی، اسی طرح کچھ عرصے سے میرا دل بھی چاہ رہا ہے کہ میں اپنی چھوٹی سی لائبریری میں موجود سیلف ہیلپ کی کتابوں کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں اور اس کی راکھ راوی میں بہا کر باقی ماندہ زندگی کسی مطمئن سادھو کی طرح انگریزی میں خطبے دیتے ہوئے گزار دوں۔

یہ انقلابی سوچ کافی عرصے سے میرے دماغ میں پرورش پا رہی تھی مگر آج میں نے سوچا کہ آپ کو بھی اس ذہنی انقلاب سے آگاہ کر دوں۔ سیلف ہیلپ (جس کا اردو ترجمہ ’’کمک بہ خود‘‘ کیا جا سکتا ہے) دراصل ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے کے لئے ہمارے جیسے غریب ملک میں بھی بہترین موٹیویشنل اسپیکرز موجود ہیں، میں پوری سنجیدگی سے سمجھتا ہوں کہ یہ سب بڑے قابل لوگ ہیں، انہوں نے سیلف ہیلپ کی کتابیں گھول کر پی رکھی ہیں، لوگ ان کی باتیں نہایت شوق سے سنتے ہیں، ان کی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی ہے، یہ آپ کو کامیاب لوگوں کی زندگیوں کی مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں کہ کیسے آپ بھی اپنی کایا کلپ کر سکتے ہیں۔

یہ سب کوئی مشکل کام نہیں، آپ چاہیں تو ان موٹیویشنل اسپیکرز کی باتوں کو پلے سے باندھ لیں یا پھر خود سیلف ہیلپ کی چنندہ کتابیں پڑھ کر ان میں دی گئی باتو ں پر عمل کر لیں، کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔

ڈیل کارنیگی سے سٹیفن کووی تک اور نیپولین ہل سے مالکم گلیڈ ول تک، کامیابی کے تمام سنہری اصول ان بزرگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دیے ہیں، یہ اصول یا انہیں بیان کرنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے مگر ایک بات ان سب میں مشترک ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے کے لئے برائی کا سہارا لینے کا مشورہ نہیں دیتا، منافقت کو شعار بنانے کی تلقین نہیں کرتا یا بدی سے ناتا جوڑنے کے لئے نہیں کہتا۔

الٹا تمام سیلف ہیلپ کتابیں، موٹیویشنل اسپیکرز اور گرو ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کامیابی کے لیے اخلاص ضروری ہے اور کردار کی بلندی شرط ہے، اگر دوسروں کے ساتھ بھلائی کا جذبہ، لگن، دیانتداری اور نیک نیتی موجود ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔

مثلاً کچھ سال پہلے ایک کتاب آئی، نام تھا Give and Take، اس کے مصنف آدم گرانٹ نے تحقیق کی مدد سے ثابت کیا کہ جو لوگ اپنے معاملات میں زیادہ کھلے دل کے ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ دوسروں کو دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے، بالآخر وہ اُن لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو ہر وقت کچھ نہ کچھ سمیٹنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح جس برس چارلس ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب Origin of the Speciesشائع ہوئی اسی سال سیمیول سمائلز کی ’’سیلف ہیلپ‘‘ بھی شائع ہوئی، ڈیڑھ سو سال پہلے اس لکھاری نے کامیابی کے حصول کے لئے اعلیٰ کردار کی اہمیت کے بارے میں جو لکھا وہی آج کل موٹیوویشنل اسپیکرز ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مجھے کیا تکلیف ہے! اگر صدیوں سے لوگ کامیابی کے نسخوں میں نیکی، کردار سازی، صداقت، ایمانداری اور محنت کی تلقین کرتے آ رہے ہیں تو اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے۔ لوگوں کو اگر اچھائی کی ہدایت نہ دیں تو کیا شیطان کا پجاری بنا دیں؟ بالکل ایسی بات نہیں مگر اس کے باوجود میں نے بہر حال سیلف ہیلپ کی کتابوں کو آگ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کے یہ کلیے باقی دنیا میں یقیناً کام کرتے ہوں گے مگر وطن عزیز میں کوئی خاص کام نہیں کرتے۔

یقین نہیں آتا تو ابھی ایک چھوٹا سا سروے کر لیتے ہیں، ایک فہرست ان تمام لوگوں کی بنائیں جو آپ کی نظر میں دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہیں، اِس میں ارب پتی کاروباری، ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے سیاستدان، طاقتور بیوروکریٹس اور ایسے ہی دیگر با اثر افراد کو شامل کریں جو میڈیا پر چھائے رہتے ہیں، کوشش کریں کہ یہ فہرست سو لوگوں پر مشتمل ہو، اب ان کی چھانٹی شروع کریں اور دیکھیں کہ ان میں سے کتنے لو گ اعلیٰ اخلاق کے اُس درجے پر پورے اترتے ہیں جو ہمیں سیلف ہیلپ کی کتابوں میں لکھا ملتا ہے یا اِس فہرست کو ایمانداری، ایفائے عہد اور وفاداری کی چھلنی سے گزاریں اور دیکھیں کتنے لوگ بچتے ہیں۔

شاید آدھے سے زیادہ لوگ اس فہرست سے باہر نکل جائیں۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ کسی کے کردار، دیانت یا نیک نیتی کے بارے میں عدم ثبوت یا بغیر وجہ کے درست اندازے لگانا ممکن نہیں، ٹھیک بات ہے مگر اپنی آسانی کے لیے آپ جو بھی میعار مقرر کریں گے یہ فہرست کسی نہ کسی طرح گھٹ کر آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔

میرا مقدمہ یہ نہیں کہ سیلف ہیلپ کی کتابوں میں دیے گئے مشورے بیکار ہو تے ہیں یا پھر ہمارے ملک میں صرف بددیانت اور پست کردار کے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں، ہر گز نہیں، میں تو صرف یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ اگر کامیابی کے نسخے بس وہی ہیں جو ان کتابوں میں لکھے ہیں تو پھر اپنے ملک میں ایسے لوگ کیوں کر کامیاب ہو جاتے ہیں جن میں وہ خوبیاں پائی ہی نہیں جاتیں جن کا ذکر ہمیں کلید کامیابی جیسی کتابوں میں ملتا ہے۔

دراصل سیلف ہیلپ کتابوں میں آدھا سچ لکھا ہے، مکمل سچ لکھنا شاید مکن نہیں۔ کون احمق یہ لکھے گا کہ دنیاوی کامیابی کے حصول کے لیے تھوڑی بہت بے اصولی ضروری ہے اور طوطا چشمی لازمی، سفاک ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں اور اعلیٰ کردار تو ویسے بھی پیغمبروں کا وصف ہوتا ہے عام آدمی کا اس سے کیا لینا دینا، کامیاب ہونا ہے تو کسی طاقت ور کی مدح سرائی کرو، چڑھتے سورج کی پوجا کرو اور نظریات سے جان چھڑا کر اور ضمیر کی قید سے نکل کر ہر وہ کام کرو جس میں فائدہ ہے، راوی چین ہی چین لکھے گا۔

کامیابی کا یہ نسخہ تیر بہدف بھی ہے اور محفوظ بھی، اپنے ملک میں کم از کم آج تک کوئی ایسا شخص میری نظر سے نہیں گزرا جس نے ان اصولوں پر عمل کیا ہو اور گھاٹے میں رہا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو ایمانداری کا ہیضہ ہے، جو اعلیٰ کردار کے حامل ہیں، جو ہر نئے حکمران کو ڈورے نہیں ڈالتے، وہ ہمیشہ ناکام ہی رہتے ہیں ۔ نہیں۔

میں تو فقط پہلی قسم کے لوگوں کو سلام پیش کر کے اپنی سیلف ہیلپ کی کتابوں کو آگ لگانے لگا ہوں جنہوں نے وطن عزیز میں کامیابی حاصل کر نے کے نئے اصول دریافت کیے ہیں، یہ نابغہ روزگار لوگ اب ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، کیا یہ چھوٹی بات ہے کہ انہوں نے کلاسیکی کتابوں میں لکھی تھیوریوں کو غلط ثابت کر کے سیلف ہیلپ کی ایک نئی تھیوری ایجاد کی ہے جس سے باقی دنیا اب تک لا علم تھی۔

اب چونکہ اس خاکسار نے یہ تھیوری بیان کر دی ہے تو امید کی جانا چاہیے کہ پاکستان کے موٹیویشنل اسپیکرز جب بھی عام لوگوں کو کامیابی کے نسخے سمجھائیں گے تو انہیں یہ بھی بتائیں گے کہ کامیابی کے لیے سب سے ضروری چیز چڑھتے سورج کی پوجا اور طاقتور کو سلام ہے، باقی سب کتابی باتیں ہیں۔

کالم کی دُم: پاکستانی اداکارائیں آج کل انگریزی میں بہت چہکار (ٹویٹ) رہی ہیں اور اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ نادرہ، گوری، صائمہ یا انجمن نہیں بلکہ ایسی پڑھی لکھی خواتین ہیں۔ جو کشمیر پر ’’اسٹینڈ ‘‘ لینا جانتی ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اسٹینڈ وہ ہے جو کون کونا سین شرما جیسے آرٹسٹوں نے بھارت میں لیا ہے وہ نہیں جو انوپم کھیر نے لیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔