Time 25 اگست ، 2019
دنیا

حضرت عزیر علیہ السّلام

حضرت عزیز علیہ السلام سے عراق میں منسوب ایک مزار۔

بخت نصر کی قید میں

حضرت عزیر علیہ السّلام، حضرت ہارونؑ کی اولاد اور بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حضرت سلیمانؑ کے بعد اور حضرت زکریاؑ سے پہلے مبعوث فرمایا۔ یہ چھٹی صدی قبلِ مسیح کی بات ہے ، جب بنی اسرائیل کی سرکشی، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چُکی تھیں۔ ہر طرف ظلم و جبر، فساد اور لُوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس زمانے کے پیغمبروں کے ذریعے بنی اسرائیل کو متنبّہ فرمایا کہ اپنی ان قبیح حرکتوں سے باز آ جائیں ،ورنہ گزشتہ قوموں کی طرح اُنہیں بھی عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا ہو گا۔ بار بار کی تنبیہہ کے باوجود، جب اُن پر کوئی اثر نہ ہوا اور اُن کی بداعمالیاں روز بروز بڑھتی چلی گئیں، تو قومِ عمالقہ کا ایک ظالم و سفّاک بادشاہ، جس کا نام ’’بخت نصر‘‘ تھا، بابل سے ایک بڑی فوج کے ساتھ آندھی و طوفان کی طرح راستے کی حکومتوں کو پامال کرتا فلسطین کی طرف بڑھا اور تھوڑے ہی عرصے میں اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ تورات کے مطابق40ہزار سے زاید علماء قتل کر دیئے گئے، یہاں تک کہ وہاں تورات کا ایک بھی عالِم زندہ نہ بچا۔ اس کے ساتھ ہی بخت نصر نے بنی اسرائیل کے80ہزار افراد کو قیدی بنایا اور اُنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر بابل لے گیا، جن میں حضرت عزیرؑ بھی شامل تھے، جو اُس وقت نوعُمر تھے۔ بخت نصر کے حکم پر اُس کی خون خوار فوج نے بیتُ المقدِس میں حضرت سلیمانؑ کی تمام باقیات کو تباہ و برباد کر دیا۔ عظیم الشّان محلّات کھنڈرات میں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہیکلِ سلیمانی میں موجود وسیع و عریض اور نادر ونایاب کُتب سے مزیّن کُتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا، جس میں تورات کے اصل نسخے بھی تھے۔ نیز، تابوتِ سکینہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا۔ تورات کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے اُس ظالم و جابر بادشاہ پر عذاب نازل کیا اور اُس کی شکل مسخ کر دی۔حضرت عزیرؑ ایک طویل عرصے تک دیگر اسرائیلیوں کی طرح بابل میں قید رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عُمر میں آپؑ کو منصبِ نبوّت پر سرفراز فرمایا ۔

یہودی حضرت عزیر ؑ کو’’ اللہ کا بیٹا‘‘ کہنے لگے

حضرت عزیرؑ کو جب بابل کی اسیری سے نجات ملی، تو بحکمِ خداوندی دوبارہ بیتُ المقدِس تشریف لے آئے۔ اُس وقت تورات کا کوئی حافظ زندہ تھا اور نہ ہی تورات کا کوئی نسخہ موجود تھا۔ آپؑ کو فکر لاحق ہوئی کہ اب اللہ کے کلام کو عام لوگوں تک کیسے پہنچایا جائے؟ چنان چہ، اُنھوں نے اسرائیلیوں کو جمع کیا اور چوں کہ آپؑ نے بچپن ہی میں تورات حفظ کر لی تھی، لہٰذا، اُسے اُن سب کے سامنے پڑھ کر تحریر کروایا۔ بعض اسرائیلی روایات میں ہے کہ جس وقت اُنہوں نے بنی اسرائیل کو جمع کیا، تو سب کی موجودگی میں آسمان سے دو چمکتے ہوئے ’’شہاب‘‘ اُترے اور حضرت عزیرؑ کے سینے میں سما گئے۔ تب حضرت عزیرؑ نے بنی اسرائیل کو اَزسرنو تورات مرتّب کر کے عطا فرمائی۔ جب وہ اس اہم کام سے فارغ ہوئے، تو بنی اسرائیل نے انتہائی مسرّت کا اظہار کیا اور اُن کے قلوب میں آپؑ کی قدرومنزلت بڑھ گئی۔(البدایہ والنہایہ، جلد2، ص45)۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ محبت و عقیدت غلو اور گم راہی میں بدل گئی، یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے حضرت عزیرؑ کو’’ اللہ کا بیٹا‘‘ کہنا شروع کر دیا، جس کے بارے میں اللہ ربّ العزّت نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا’’اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر، اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح، اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ اُن کے منہ کی باتیں ہیں، پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے۔ یہ بھی اُن ہی کی رِیس کرنے لگے ہیں۔ اللہ اُنہیں ہلاک کرے، یہ کہاں بھٹکتے پِھرتے ہیں؟‘‘ (سورۂ توبہ، آیت۔30)۔ ابنِ عساکرؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ آپؓ نے حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے سوال کیا کہ اس فرمانِ الٰہی کا کیا مطلب ہے؟ترجمہ: ’’اور یہود نے کہا کہ’’ عزیر، اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘یہ یہود نے کیوں کہا؟‘‘عبداللہ بن سلامؓ نے فرمایا کہ’’ حضرت عزیرؑ نے بنی اسرائیل کی خاطر پوری تورات حفظ کر لی، جس پر اُنہوں نے کہا’’ موسیٰؑ بھی اِتنی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ بغیر کتاب کے پوری تورات سُنا سکیں اور پیش کر سکیں، جب کہ عزیرؑ ہمارے پاس پوری تورات بغیر لکھی اور بغیر کسی کتاب کے لے آئے۔‘‘ اسی وجہ سے بنی اسرائیل کے کئی گروہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ عزیر، اللہ کا بیٹا ہے۔‘‘ (ابنِ کثیرؒ)

حسب نسب اور حالاتِ زندگی

حضرت عزیر علیہ السّلام کی حیاتِ طیبہ کے بارے میں قرآن و احادیث اور تاریخ کی کُتب میں زیادہ مواد نہیں ملتا۔ قرآنِ کریم کی سورۂ توبہ میں صرف ایک جگہ آپؑ کا نام مذکور ہے۔ اس کے علاوہ، سورۃ البقرہ کی آیت259میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس کے بارے میں علماء و مفسرّین کا کہنا ہے کہ وہ حضرت عزیرؑ کے بارے میں ہے۔ خود تورات میں حضرت عزیرؑ کے نام سے کتاب’’صحیفۂ عزرا‘‘ میں بھی اُن کی اپنی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ملتیں، صرف اس قدر پتا چلتا ہے کہ جس وقت بخت نصر نے بیت المقدِس پر حملہ کیا، تو آپ کم عُمر تھے اور قید کر کے بابل لے جائے گئے تھے۔ پھر بابل کی قید سے دوبارہ بیت المقدِس کی تعمیر تک آپؑ بنی اسرائیل کے ساتھ ہی رہے۔حافظ ابوالقاسم بن عساکرؒ نے آپؑ کا نسب یوں بیان کیا ہے: عزیر بن جروۃ (ابن سورق بھی کہا گیا ہے)، بن عدیا بن ایوب بن درزنا بن عری بن تقی بن اسبوع بن فخاص بن العازر بن ہارون ؑبن عمران۔ایک قول کے مطابق آپؑ کے والد کا نام، سروخا تھا۔( واللہ اعلم)

قرآنِ پاک میں قصّہ

قرآنِ کریم کی سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور پھر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر اُس بستی پر ہوا، جو چھت کے بل اوندھی پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا’’ اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟‘‘، تو اللہ تعالیٰ نے اُسے مار دیا ایک سو سال کے لیے، پھر اُسے اٹھایا۔ پوچھا’’ بتائو کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟‘‘ کہنے لگا’’ ایک دن یا دن کا کچھ حصّہ۔‘‘ فرمایا’’ تم پر ایک سو سال اِسی حالت میں گزر چُکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو، یہ خراب تو نہیں ہوئے اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو۔ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر پر ہم کس طرح گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔‘‘ اِس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی، تو اُس نے کہا کہ’’ مَیں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔ 2، آیت۔259)مفسرّین فرماتے ہیں کہ اِس آیت میں جس شخص کا ذکر ہے، وہ حضرت عزیر علیہ السّلام ہیں۔حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ ؓبن سلام کا رجحان بھی اِس جانب ہے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السّلام سے متعلق ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر، جلد۔1، ص۔314)۔مفسرّین فرماتے ہیں کہ جب حضرت عزیرؑ کو بابل میں نصر بخت کی قید سے نجات ملی، تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا کہ اب تم واپس بیت المقدِس جائو، ہم اُس کو دوبارہ آباد کریں گے اور ایک خُوب صورت اور پُررونق شہر بنائیں گے، چناں چہ وہ جب وہاں پہنچے اور شہر کو تباہ و برباد اور کھنڈر پایا، تو حیرت اور تعجب کے ساتھ بے اختیار اُن کے منہ سے نکلا’’ اِس مُردہ بستی کو کیسے زندگی ملے گی؟‘‘ اللہ جل شانہ کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس کے بعد اُن کی موت کی نیند کا واقعہ پیش آیا۔ پھر جب وہ دوبارہ زندہ کیے گئے، تو بیت المقدِس(یروشلم) ایک آباد اور پُررونق شہر تھا۔

اللہ کیسے ان کو موت کے بعد زندہ فرمائے گا؟

حافظ ابنِ کثیرؒ، اسحاق بن بشرؒ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عزیرؑ بڑے دانا، نیک انسان تھے۔ ایک دن اپنی زمین کی طرف نکلے، واپسی میں ایک ویران عمارت میں ٹھہر گئے، کیوں کہ گرمی سخت تھی۔ آپؑ اپنے گدھے سے اُتر کر عمارت میں داخل ہوئے۔ آپؑ کے ساتھ کھانے کے دو ٹوکرے تھے، ایک ٹوکرے میں انجیر اور دوسرے میں انگور تھے۔ آپؑ نے اپنے ساتھ موجود پیالہ نکالا اور اُس میں انگور نچوڑے، پھر خشک روٹی نکالی اور اُسے مشروب میں ڈال دیا تاکہ کچھ نرم اور میٹھی ہو جائے، تو کھا لیں۔ پھر آپؑ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے، نظریں عمارت کی ویران چھت کی طرف اُٹھیں، تو دیکھا کہ یہ عمارت اپنے عرشے پر کھڑی ہے اور اس کے رہنے والے مر کھپ چُکے ہیں، جن کی بوسیدہ ہڈیاں بکھری پڑی ہیں، تو آپؑ کی زبان سے بے ساختہ نکلا’’اللہ کیسے ان کو موت کے بعد زندہ فرمائے گا؟‘‘آپؑ کو یہ شک نہیں تھا کہ اللہ ان کو زندہ نہ فرمائے گا، بلکہ اس کے طریق و کیفیت پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ پھر اللہ عزّوجل نے حضرت جبرائیلؑ کو اُن کے پاس بھیجا، جنہوں نے حضرت عزیرؑ کی رُوح قبض کر لی اور پھر ایک سو سال تک اللہ نے اُن کو یوں ہی موت کی نیند سُلائے رکھا۔ اِس دَوران بنی اسرائیل میں بہت سے واقعات و حادثات رُونما ہوئے اور بیت المقدِس پھر آباد ہو کر پُررونق شہر بن گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپؑ میں رُوح پھونک دی۔ آپؑ زندہ ہو کر بیٹھ گئے، تو فرشتے نے پوچھا’’ آپؑ یہاں کتنی مدّت رہے؟‘‘ جواب دیا’’ ایک دن یا دن کا کچھ حصّہ۔‘‘ دراصل آپؑ دن کے شروع میں آرام فرما ہوئے تھے اور اُس وقت غروبِ آفتاب کا وقت تھا۔ فرشتے نے کہا’’ نہیں، بلکہ آپؑ ایک سو برس تک اِسی حالت میں رہے ہیں۔ آپؑ اپنا کھانا، پانی دیکھیے’’اپنے کھانے، پانی کو دیکھیے، جو بدلا تک نہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ 259)جب حضرت عزیرؑ نے اپنے کھانے کی طرف نظر ڈالی، تو انگور کا شیرہ اور خشک روٹی اپنی اُسی حالت میں تھی، دونوں میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اِسی طرح انجیر اور انگور بھی اُسی طرح تروتازہ تھے۔ پھر آپؑ کے دِل میں بتائی گئی مدّت کے بارے میں انکار کا خیال پیدا ہوا، تو فرشتے نے کہا’’ آپؑ میری بتائی ہوئی مدّت کو بعید اور غلط سمجھ رہے ہیں، تو پھر ذرا اپنے گدھے کی طرف تو دیکھیے۔‘‘ جب حضرت عزیرؑ نے گدھے کی طرف دیکھا، تو حیران رہ گئے ،کیوں کہ اُس کی ہڈیاں گل سڑ کر بوسیدہ ہو چُکی تھیں۔ فرشتے نے ہڈیوں کو حکم دیا، تو ہڈیاں ہر طرف سے اکھٹی ہو کر ایک جگہ جمع ہوئیں اور پھر جُڑ کر ڈھانچا بن گئیں۔ حضرت عزیرؑ حیران ہو کر اللہ کی قدرت کا نظارہ دیکھ رہے تھے، پھر اس ڈھانچے پر رگیں چڑھیں، پٹھے بنے، گوشت چڑھا، پھر اُن پر کھال اور بال آگئے، پھر فرشتے نے اُس میں پھونک ماری، تو گدھا آسمان کی طرف اپنا سَر اور کان اٹھائے آوازیں نکالتا کھڑا ہوگیا۔ جب حضرت عزیرؑ نے قدرتِ الٰہی کی یہ نشانیاں دیکھیں اور شہر کو پہلے سے زیادہ بارونق پایا، تو بول اٹھے کہ’’ مَیں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

پرانے محلّے میں واپسی

پھر آپؑ اپنے گدھے پر سوار ہو کر اپنے محلّے میں تشریف لائے، تو لوگوں نے آپؑ کو نہیں پہچانا۔ آپؑ اپنا گھر بھی بھول چُکے تھے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنے گھر پہنچے، تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو بیٹھے پایا، جس کی عُمر تقریباً ایک سو بیس سال تھی۔ وہ وہاں کے رہائشیوں کی والدہ تھیں۔ جس وقت آپؑ گھر سے نکلے تھے، اُس وقت وہ بیس سال کی جوان لڑکی تھی اور آپؑ سے خُوب اچھی طرح واقف تھی۔ حضرت عزیرؑ نے اُس بڑھیا سے پوچھا’’ کیا یہ عزیر کا گھر ہے؟‘‘ تو بڑھیا نے حیران ہو کر کہا’’جی ہاں‘‘۔ پھر بڑھیا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بولی’’ مَیں نے ایک عرصے سے کسی کے منہ سے عزیرؑ کا ذکر نہیں سُنا، اب تو لوگ بھی اُن کو بھول چُکے ہیں۔‘‘ اس پر حضرت عزیرؑ نے فرمایا’’مَیں ہی عزیرؑ ہوں۔ اللہ نے مجھے ایک سو سال تک موت کی نیند سُلا دیا تھا اور مجھے اب اٹھایا ہے۔‘‘ بڑھیا نے کہا’’ سبحان اللہ! بے شک عزیر ؑکو ہم سے بچھڑے ایک سو سال ہو چُکے ہیں اور کسی سے اُن کے متعلق ہم نے کچھ سُنا بھی نہیں، لیکن آپؑ کیسے عزیرؑ ہو سکتے ہیں؟ عزیرؑ تو مستجاب الدعوات تھے۔ وہ جس مریض یا مصیبت زدہ کے لیے دُعا کرتے، وہ فوراً ٹھیک ہو جاتا تھا۔ لہٰذا، اگر آپؑ دُعا کریں کہ اللہ مجھے بصارت لَوٹا دے، تو مَیں آپؑ کو دیکھ کر بتائوں گی کہ آپؑ عزیرؑ ہیں یا نہیں۔‘‘ حضرت عزیرؑ نے دُعا کی اور اپنے دستِ مبارک کو اُس کی آنکھوں پر پھیرا، تو اُس کی بصارت بحال ہو گئی ۔ چوں کہ وہ اپاہج بھی تھی، اس لیے آپؑ نے بڑھیا کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا’’ اللہ کے حکم سے کھڑی ہو جا‘‘، تو اللہ نے اُس کی ٹانگیں بھی درست فرما دیں۔ بڑھیا نے آپؑ کو دیکھا، تو پکار اٹھی’’ مَیں گواہی دیتی ہوں کہ آپؑ ہی عزیرؑ ہیں۔‘‘پھر بڑھیا اُن کو لے کر بنی اسرائیل کے محلّے میں اُن کے عزیزوں کے گھر پہنچی۔ وہاں حضرت عزیرؑ کا ایک بیٹا بھی موجود تھا، جس کی عُمر ایک سو اٹھارہ سال تھی، جب کہ اُن کے پوتے بھی قبیلے کے بڑے بزرگ اور سردار تھے۔ بڑھیا نے اُن سب کو آواز دی اور بولی’’ یہ عزیرؑ ہیں، اللہ نے اِن کو ایک سو سال کے لیے موت کی نیند سُلا دیا تھا، یہ اب اللہ کے حکم سے اٹھے ہیں اور تم سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ لوگوں نے پہلے تو یقین نہیں کیا، لیکن جب اُس نے اپنی بینائی آنے اور ہاتھ پائوں ٹھیک ہونے کے بارے میں بتایا، تو سب حیران رہ گئے۔ اُن کے بیٹے نے کہا’’ میرے والد کے دونوں شانوں کے درمیان ایک سیاہ نشان تھا۔‘‘ آپؑ نے اپنے شانوں کو کھولا، تو وہ نشان موجود تھا۔ پھر بنی اسرائیل نے کہا’’ ہمارے اندر کوئی تورات کا حافظ نہیں تھا، سوائے حضرت عزیرؑ کے اور بخت نصر نے تورات کے سارے نسخے جلا دیئے تھے۔ لہٰذا، آپؑ ہمارے لیے تورات کو لکھ کر دکھائیے؟ حضرت عزیرؑ کے والد نے بخت نصر کے ایّام میں تورات کے ایک اصل نسخے کو دفن کر دیا تھا اور آپؑ کے علاوہ کسی کو اُس جگہ کا علم نہیں تھا، چناں چہ حضرت عزیرؑ اُن کو لے کر اُس جگہ پہنچے اور گڑھا کھود کر تورات نکالی، جس کے اوراق بہت بوسیدہ ہو چُکے تھے اور لکھائی بھی مِٹ چُکی تھی۔ پھر آپؑ سب کو لے کر ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے، اِتنے میں اللہ کے حکم سے آسمان سے دو شعلے اُترے اور آپؑ کے سینۂ مبارک میں داخل ہوگئے اور آپؑ کو پوری تورات خُوب یاد آ گئی۔ آپ ؑنے نئے سرے سے تورات لکھ کر بنی اسرائیل کے حوالے کر دی۔ ایک تو آپؑ نے تورات لکھی اور دوسرے آپؑ کے ساتھ دو شعلوں والا معجزہ پیش آیا، جس کی وجہ سے بنی اسرائیل اُنھیں’’ اللہ کا بیٹا‘‘ کہنے لگے۔(نعوذ باللہ) حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عزیرؑ اس آیت کی حقیقت کے مصداق بن گئے’’اور ہم آپ کو لوگوں کے لیے نشانی بنا دیں‘‘۔ یعنی بنی اسرائیل کے لیے ۔اور یہ نشانی اس طرح تھی کہ آپؑ جب اپنے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ بیٹھتے، تو وہ بوڑھے لگتے اور آپؑ بالکل جوان، کیوں کہ آپؑ کی وفات چالیس برس کی عُمر میں ہوئی اور ایک سو سال بعد جب اٹھے، تو پھر بھی وہی عُمر تھی۔ (قصص الانبیاء۔ ابن کثیرؒ۔ ص۔598)مفسرّین کے مطابق آپؑ کی قبرِ اطہر، دمشق میں ہے۔

مزید خبریں :