10 ستمبر ، 2019
سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے شہریوں کو یوم عاشور کے جلوس نکالنے کی بھی اجازت نہ دی۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارت کی جانب سے کرفیو اور پابندیوں کو آج مسلسل 37 واں روز ہے جس میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند ہے جس کے باعث کشمیری اپنے پیاروں سے رابطے کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں یوم عاشور کے روز جلوس و مجالس کو روکنے کے لیے کرفیو اور پابندیوں کو مزید سخت کردیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عاشورہ کے جلوسوں کو روکنے کے لیے سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں صحافیوں سمیت کسی کو داخلے کی اجازت نہیں۔
جب کہ سری نگر اور دیگر ملحقہ علاقوں کو خاردار تاریں لگاکر مکمل سیل کیا گیا ہے، تمام مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بھی مکمل طور پر بند ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس سمیت 5 اگست سے تاحال معطل ہے جس سے وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے جب کہ کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے اشیائے خوردونوش سمیت دواؤں کی بھی شدید قلت ہے۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
کشمیر میں اب کیا ہورہا ہے؟
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ کشمیر میں حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔