11 ستمبر ، 2019
لاہور: سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے مقتول خلیل کے بھائی اور بچوں نے ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کردیا۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ ساہیوال کیس کی سماعت ہوئی جس دوران مقدمے کے ملزمان صفدر، احسن، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز کو پیش کیا گیا۔
مقتول ذیشان کے بھائی احتشام نے عدالت کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کرایا، مقتول خلیل کے بچوں عمیر اور منیبہ، بھائی جلیل نے بھی بیان ریکارڈ کروادیا جب کہ مقتول خلیل کے بچوں اور بھائی نے ملزمان کو شناخت نہ کرسکنے کا بیان دے دیا۔
عمیر اور منیبہ کا کہنا تھا کہ وہ گولی چلانے والے اہلکاروں کی شناخت نہیں کرسکتے، مقتول کے بھائی جلیل نے بیان دیا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھا۔
بعد ازاں عدالت نے مزید گواہان کو شہادتوں کے لیے طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کردی۔
سانحہ ساہیوال کا پسِ منظر
رواں سال 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی ابتدائی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔
مقتولین کے ورثا کی درخواست پر ہائیکورٹ نےٹرائل ساہیوال سے لاہور منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، عدالت میں اب تک 12 گواہ اپنا بیان قلمبند کروا چکے ہیں۔