12 ستمبر ، 2019
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے آپ سمیت سب کو بند گلی میں دھکیل دیا۔ جس طریقے سے وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے جارہے تھے اگر اس طریقے سے ہوجاتا تو بھی مصیبت تھی اور اب جب مذاکرات ختم کئے تو بھی مصیبت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قطر میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کو غلط طور پر امن مذاکرات کا نام دیا گیا تھا۔ یہ امن مذاکرات نہیں بلکہ صرف امریکہ اور طالبان کے مذاکرات تھے۔ امن صرف اس صورت میں آسکتا ہے کہ جب افغان آپس میں بھی جنگ ختم کرکے مشترکہ سیاسی نظام پر متفق ہو جائیں۔
نائن الیون سے قبل تو افغانستان میں امریکہ یا کسی اور ملک کی افواج موجود نہیں تھیں تو کیا وہاں امن تھا؟ سوویت انخلا کے بعد تو نجیب حکومت اور مجاہدین کی لڑائیوں پھر مجاہدین کی آپس کی لڑائیوں اور اس کے بعد طالبان اور مجاہدین کی لڑائیوں میں جو تباہی ہوئی، اس کے مقابلے میں تو وہ تباہی ہیچ تھی جو سوویت افواج کے قبضے کے دوران ہوئی تھی۔ یوں بین الافغان مفاہمت کے بغیر امریکی افواج کے انخلا کی صورت میں ضروری نہیں کہ امن آجائے بلکہ مزید تباہی بھی آسکتی ہے۔
افغانستان سے متعلق امریکیوں کی عقل باراک اوباما کے دور میں ٹھکانے آگئی تھی اور سیاسی حل کا راستہ نکالنے کی خاطر رچرڈ ہالبروک کو خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ تب بھی طالبان قطر میں امریکہ سے براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن جب اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے احتجاج کیا تو باراک اوباما نے بھی طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے سے انکار کردیا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی غلطی یہ کی کہ وہ افغان صدر اشرف غنی کے احتجاج کے باوجود طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے۔ ان کا اور ان کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا خیال تھا کہ جب ان کے اور طالبان کے مذاکرات ایک خاص مرحلے تک پہنچ جائیں گے تو طالبان افغان حکومت سے متعلق بھی لچک پیدا کر لیں گے اور دوسرے مرحلے پر اسے بھی شامل کر لیا جائے گا لیکن جب امریکہ نے افغان حکومت کے بغیر مذاکرات شروع کئے تو اس سے افغان حکومت کا مورال آسمان سے زمین پر آگرا جبکہ طالبان کا مورال زمین سے آسمان پر چلا گیا۔
جوں جوں مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھتے گئے توں توں افغان حکومت سے متعلق طالبان کا رویہ مزید بے لچک ہوتا گیا۔ اسی طرح امریکی مذاکرات کاروں کو خوش فہمی تھی کہ معاہدے کے قریب جاکر طالبان جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن جوں جوں وہ وقت قریب آتا گیا توں توں طالبان جنگ تیز کرتے گئے۔ جس سے افغان حکومت اور سیاسی نظام میں شامل دیگر افغان رہنماوں کا یہ پیغام ملا کہ یہ معاہدہ ان سب کی سیاسی موت ہے چنانچہ جب زلمے خلیل زاد معاہدے کا فائنل ڈرافٹ لے کر کابل گئے تو ان کا سامنا ایک بپھرے ہوئے اشرف غنی سے ہوا۔
زلمے خلیل زاد نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے پانچ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ قیدی افغان حکومت کی جیلوں میں ہیں چنانچہ اشرف غنی نے زلمے خلیل زاد سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کہہ دیں کہ وہ طالبان کے قیدی (اگر ان کے پاس ہیں) رہا کردیں۔ طالبان روزانہ میرے لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ میرے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ میری یہ انگلیاں کٹ تو سکتی ہیں لیکن طالبان کی رہائی کے حکمنامے پر دستخط نہیں کر سکتیں چنانچہ معاہدے کی ناکامی کی پہلی وجہ افغان صدر کا یہ انکار بنا۔
افغان آئین کی رو سے 2019کے اوائل میں صدارتی انتخابات ہونا تھے لیکن چونکہ امریکی مذاکرتی ٹیم جانتی تھی کہ طالبان سے مفاہمت کی صورت میں عبوری حکومت بنانا ہوگی اس لئے اشرف غنی سے انتخابات ملتوی کروائے گئے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور کئی دیگر افغان رہنما بھی مذاکرات کے پیش نظر انتخابات ملتوی کرانے کے حق میں تھے اور جب ان کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے بغیر طالبان سے معاہدہ ہونے جارہا ہے تو انہوں نے سپریم کورٹ سے مزید وقت لینے کے بجائے 28ستمبر کو صدارتی انتخابات کرانے کا قصد کیا وہ خود بھرپور مہم چلارہے ہیں جبکہ عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمتیار اور دیگر امیدوار بھی ان کی دیکھا دیکھی مہم چلانے لگے ہیں اور اس مرتبہ جب امریکی ٹیم کی طرف سے انتخابات کے التوا کا کہا گیا تو اشرف غنی نے صاف انکار کردیا۔
اصل خرابی یہ تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ مذاکرات افغانستان میں امن کے ہدف کو نہیں بلکہ اپنی افواج کے باعزت واپسی کے ہدف کو مدنظر رکھ کر شروع کئے تھے۔ پہلے ڈونلڈ ٹرمپ خلیل زاد اور متعلقہ کرداروں سے کہتے رہے کہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب سے پہلے نتیجہ نکلنا چاہئے پھر انہوں نے ستمبر کی ڈیڈ لائن رکھی کیونکہ اس نام نہاد کامیابی کو امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات کے لئے استعمال کرنا تھا چونکہ طالبان اور دیگر فریق امریکی مذاکرات کاروں کی اس کمزوری کو سمجھ چکے تھے، اس لئے انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کرکے زلمے خلیل زاد کی ٹیم سے ایسی شرائط منوا لیں جو افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی قابل قبول نہیں تھیں۔
شروع میں اسٹیبلشمنٹ یا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ڈونلڈ ٹرمپ کا راستہ نہ روک سکے لیکن جب معاہدے کی شرائط سامنے آئیں تو ان عناصر کی طرف سے مزاحمت بڑھنے لگی اور میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کے یوٹرن کی ایک وجہ یہ اندرونی مزاحمت بھی تھی۔
چونکہ زلمے خلیل زاد اور ان کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جنگ بندی کے بغیر افغان حکومت کسی صورت ان کے اور طالبان کے معاہدے کو قبول نہیں کرے گی، اس لئے مذاکراتی ٹیم طالبان سے مطالبہ کرتی رہی کہ وہ جنگ بندی کرکے معاہدے کے لئے کچھ نہ کچھ ماحول سازگار بنالیں۔
چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ بلانے کا منصوبہ بنایا لیکن جب معاملہ ملا ہیبت اللہ اور طالبان شوریٰ کے پاس آیا تو انہوں نے معاہدے پر دستخط سے قبل کیمپ ڈیوڈ جانے کی مخالفت کردی پھر جب زلمے خلیل زاد کے ذریعے یہ پیغام ان تک پہنچا کہ طالبان کیمپ ڈیوڈ آنے کو تیار نہیں تو انا پرست ڈونلڈ ٹرمپ کی انا بھی بری طرح مجروح ہوئی اور کابل میں طالبان کے حملے کو بنیاد بنا کر انہوں نے وہ ٹویٹ داغ دیا جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ آگے کیا ہوگا؟، زندگی رہی تو اس سوال کا جواب آئندہ۔