12 ستمبر ، 2019
کہتے ہیں کہ کتاب سے بڑھ کر کو ئی اچھا دوست یا رفیق نہیں۔ یہ ہمیں شعور حیات دیتی ہے اور کردار سازی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کتاب زندگی، تحرک اور روشنی کی علامت ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دیکھی یا سنی ہوئی چیز یا معلومات کے مقابلے میں پڑھی گئی کوئی بھی تحریر یا مواد ہمارے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے اور لمبے عرصے تک ہماری یادداشت کا حصہ رہتا ہے۔ لیکن کتب بینی کے رجحان کے حوالے سے ہمارے ملک میں صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔ نوجوان اپنی نصابی کتب کے مطالعے تک ہی محدود ہیں اور اس کے سوا کوئی اور کتاب پڑھنا نہیں چاہتے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کتاب سے انسان کے صدیوں پرانے رشتے میں حالات کی نزاکتیں اور وقت کا بے رحم چرخہ بھی دراڑیں نہ ڈال سکا۔
معاشرے کا اہل ذوق طبقہ آج بھی کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔ علم کے متلاشیوں کو تو کتاب پڑھے بغیر نیند بھی نہیں آتی۔ کتابوں کی حد سے بڑھی ہوئی قیمتیں کتب بینی کے رجحان میں ایک بنیادی رکاوٹ کا کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے کئی اہل ذوق کی تشفی پرانی کتابوں کے بازار کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔
یوں تو پاکستان کے تقریباً ہر بڑ ے شہر میں ایسے بازار آج بھی نظر آتے ہیں لیکن اس وقت ذکر خصوصیت سے شہر کراچی کا ہے، جہاں اتوار کے روز صدر کے بھرے پُرے علاقے ریگل چوک کی ایک ایسی گلی میں پرانی کتب کا بازار لگتا ہے جو عام دنوں میں کاروباری مصروفیت کی بنا پر لوگوں کی آمدورفت سے معمور نظر آتی ہے اور جہاں صحیح معنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ لیکن یہاں اتوار کے دن کا آغاز کتاب کے دیوانوں کی فرزانگی سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں کتابوں کا یہ بازار ڈاؤ میڈیکل کالج، مشن روڈ اور لائٹ ہاؤس پر لگا کرتا تھا۔ جب ۱۹۵۸ میں اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا تو یہ ریگل چوک پر منتقل ہو گیا۔
کتب بینی کے شوقین ہر اتوار کی صبح ریگل چوک کی متذکرہ گلی میں کتابوں کے گرد ا س طرح اکھٹے نظر آتے ہیں، جس طرح شمع کے ارد گرد پروانے منڈلاتے ہیں۔ راقم الحروف کو یہاں بڑے بڑے شاعر، دانشور اور کتابوں کے شوقین اپنے مرتبے کا خیال کیے بغیر، زمین پر اکڑوں بیٹھے، کتابوں کے ڈھیر سے اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتے نظر آئے۔
کئی صاحب ثروت لوگ ہزاروں روپے کی کتب ایک ہی وقت میں خرید کر لے جاتے دیکھے گئے اور کتابوں کے کئی دیوانوں نے تو یہاں سے کوڑیوں کے مول کتابیں خرید کر اپنی ذاتی لائیبریریاں بنا ڈالیں۔ کتابوں کے اس اتوار بازار میں مذہبی، سائنسی، نصابی، غیر نصابی و دیگر کتب باآسانی رعایتی قیمتوں پر مل جاتی ہیں۔ انگریزی کی کتابیں اچھی حالت میں ہونے کے باوجود بیس بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں، جبکہ اردو کی کتابیں ناگفتہ بہ حالت میں ہونے کے باوجود مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں کے کتب فروش زیادہ تر گلی گلی گھومنے والے کباڑیوں سے کتابیں خریدتے ہیں۔
کوئی نامور شاعر یا ادیب انتقال کر جاتا ہے اور اس کے لواحقین مرحوم کی کتابوں کے ذخیرے کی اہمیت سے ناواقف ہوں تو ان نادر کتب کو کوڑیوں کے مول ردی فروشوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں ،جہاں سے یہ کتب اتوار بازار میں پہنچ جاتی ہیں۔ نامور شاعروں اور ادیبوں کی لکھی ہوئی کئی ایسی کتابیں یہاں اتفاقاََ مل جاتی ہیں، جن پر مصنف کے دستخط ہوتے ہیں۔
راقم کو حال ہی میں ایسی ہی ایک معرکۃ الارا کتاب ’یادوں کا جشن‘ ارزاں قیمت پر ملی جس پر اس کے مصنف کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے دستخط ہیں۔کنور صاحب ۱۹۸۵ میں ہندوستان سے کراچی تشریف لائے تھے اور مذکورہ کتاب انہوں نے کسی شکیلہ خانم نامی خاتون کو تحفتاً پیش کی تھی۔ شکیلہ خانم تو خدا جانے کیا ہوئیں اور کتاب پہنچی اتوار بازار میں، اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی کتب ملیں، جن پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود ہیں۔ ان میں جیل سپریٹنڈنٹ راشد سعید کی کتاب، ایچ اقبال کی ابجد موسیقی، سرشار صدیقی کی کتب شامل ہیں۔
مشہور ادبی رسالوں کے50۔40برس پرانے شمارے بھی یہاں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں، جن میں ساقی، نیرنگ خیال، ادب لطیف اور نقوش جیسے مشہور زمانہ مستند جریدے شامل ہیں۔
’’ ۱۹۵۸ کی بات ہے، سحر انصااری عید کی خریداری کے لیے صدر آئے۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے انہیں پرانی کتابیں فروخت کرنے والے دکھائی دیے۔ کتابیں دیکھ کر وہ عید کی خریداری بھول گئے اور ان پیسوں سے میں نے دیوان مومن خرید لی۔ یوں بھی اس زمانے میں لوگ علم و ادب کے نہایت دلدادہ تھے۔ صبح ہی سے صدر پہنچ جایا کرتے اور قریبی ہوٹلوں میں ناشتہ کرنے کے بعد کتاب بازار کھلنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر نوشاد اور ڈاکٹر نواز علی شوق کے ذوق و شوق کا تو یہ عالم تھا کہ دونوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ دیکھیں، پہلے کون بازار پہنچتا ہے۔ دوپہر کے وقت معروف افسانہ نگار غلام عباس بھی کتابوں کی خریداری کے لیے پہنچ جاتے۔ حمایت علی شاعر، غازی صلاح الدین، شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر محمد علی، عبید اللہ بیگ اور دیگر بہت سے شاعر و ادیب، سب علمی تسکین کے لیے یہیں کا رخ کیا کرتے۔ ‘‘
کتب فروش، کتابوں کو زمین پر ترتیب سے لگا رہے ہوتےاور بعض بے صبرے گاہکوں نے تو اسی دوران کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیتے۔ ہر کسی کو یہی جلدی لاحق ہرہتی کہ پسندیدہ کتاب کا بھاؤ تاؤ جلد از کر لیا جائے اس سے قبل کہ کوئی اور طلبگار آ دھمکے۔ کتب فروشوں کی طرف سے بھی اس کو پوری آزادی ملی ہوئی ہے کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کتابوں کے شوقین شدید دھوپ میں ارد گرد کے ماحول سے یکسر بے خبر کتابوں کے سحر میں کھوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس بازار میں کتابوں کی قیمتوں کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ ایک کتاب جو بڑی جدوجہد کے بعد ایک سو بیس روپے میں خریدی گی ہے، اسی روز کوئی دوسرا کتب فروش، چالیس روپے میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ کتب فروش اپنے طویل تجربے کی بنا پر خریدار کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور چند لمحوں میں خریدار کا مکمل جائزہ لے کر ہی کتاب فروخت کرتے ہیں۔ مشہور افسانہ نگار اے حمید نے اپنے ایک ایسے دوست کا ذکر کیا تھا ،جن کے پاس تاش کھیلتے وقت جب بھی عمدہ پتے آتے تو غیر ارادی طور پر ان کی ایک مونچھ پھڑکنے لگتی تھی اور یار لوگ اپنے اپنے پتے پھینک کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
کتابوں کے بازار کے گاہکوں کی مونچھوں کا تو ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ علم ضرور ہے کہ جہاندیدہ کتب فروش کتاب پسند آ جانے پر خریدار کی دلی کیفیت کا اندازہ بہ آسانی کر لیتے ہیں۔ آنکھوں کی چمک اور چہرے کا یک دم بدلتا ہوا رنگ، پسندیدہ کتاب کو دیکھ کر گاہک کی دلی کیفیت کے غماز ہوتے ہیں اور پھر کتب فروش خریدار کو جال میں پھنسے کبوتر کی مانند برتتے ہیں۔