21 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ لیکن شاہد خاقان عباسی شاید یہ بات اُس وقت بھول جاتے ہیں جب نیب حراست کے دوران وہ جیل میں خود کلامی کرنے لگ جاتے ہیں۔
عباسی کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ نیب کے پنڈی آفس کی دیواریں باتیں بھی کرتی ہیں۔ جو کچھ اُن دیواروں نے سنا اور اس نمائندے کو بتایا وہ شاید پڑھتے ہوئے اچھا نہ لگے۔
جو کچھ بھی نیب کی دیواروں نے بتایا وہ ممکن ہے کہ نیب والوں کو بھی اچھا نہ لگے، سابق وزیراعظم نے ادارے کی احتساب کی مہم کو ’’ناقابل یقین حد تک وحشیانہ‘‘ قرار دیا ہے، اب تو ستر پوشی بھی جا چکی ہے۔
کام کا طریقہ بڑا ہی سادہ ہے: ’’تمیز سے پیش نہ آئے‘‘ تو گرفتار ہو جائو گے۔
اس کے بعد یہ لوگ کوئی ’’جرم‘‘ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ آپ پر اس کا الزام عائد کیا جا سکے۔
ان دیواروں کا کہنا ہے کہ’’جن لوگوں کو آپ بھی جانتے ہیں‘‘ ان میں سے کسی نے بھی گرفتاری سے قبل یا بعد میں شاہد خاقان عباسی سے ملاقات نہیں کی تھی کیونکہ ’’وہ لوگ‘‘ ان کا (شاہد عباسی) کا جواب جانتے ہیں۔ یہ لوگ ’’ثالثوں‘‘ کو استعمال کرتے ہیں جو آپ کے دل کا حال جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر انہیں بتا دیتے ہیں؛ یہ لوگ ’’دوست‘‘ ہوتے ہیں، یہ لوگ سیاسی بھی ہوتے ہیں اور غیر سیاسی بھی۔
جو کچھ اُس دیوار نے کہا میں بتاتا ہوں: نواز شریف نے طے کر لیا ہے؛ وہ صرف وہی ڈیل کریں گے جس میں ان کی ’’عزت‘‘ اور آئینی جمہوریت کا تحفظ شامل ہو۔ انہیں اقتدار نہیں چاہئے اور وہ اس بات کی قیمت چکانے کیلئے بھی تیار ہیں۔
اپنے بارے میں شاہد خاقان عباسی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: الحمد للہ، مجھے کسی بات پر شرمندگی نہیں۔
میں اپنے 10؍ ماہ کے دوران ’’جن لوگوں کو آپ جانتے ہیں ان کے سامنے‘‘ پیش پیش رہا لیکن میں نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ سکتا؛ اور ایسا نہیں ہوتا، وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن عوام نواز شریف کو جانتے ہیں۔
یہی قدرت کا کام ہے؛ یہی سیاست ہے۔ دیوار بتاتی ہے کہ شاہد عباسی نے اپنا وزارت عظمیٰ کا دور یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ’’ان لوگوں‘‘ نے بتایا کہ نواز شریف کے پاس سنگاپور کے بینک میں ایک ارب ڈالرز اور لندن میں 300؍ جائیدادیں ہیں تو اس پر انہوں نے ’’ان لوگوں کو‘‘ بڑے واضح انداز سے بتایا کہ میری معلومات کے برعکس اگر وہ نواز شریف کیخلاف 10؍ لاکھ ڈالر اور لندن میں ایک بھی جائیداد سامنے لے کر آئے تو مل کر نواز شریف کا سامنا کریں گے اور وہ (شاہد عباسی) نواز شریف کو چھوڑ دیں گے۔ لیکن کبھی کچھ سامنے نہیں آیا۔
نیب کی دیواروں نے شاہد خاقان عباسی کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ: نواز شریف کوئی فرشتہ نہیں، لیکن وہ چور بھی نہیں۔ جب آپ دولت کماتے ہیں تو ہمیشہ ایک اور فریق بھی شامل ہوتا ہے، جسے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ 30؍ سال کے دوران میں اب تک اس شخص کو تلاش کر رہا ہوں جس نے نواز شریف کو ادائیگی کی ہو۔ اس کے بعد وہ غلط اقدامات کی بات کرتے ہیں۔
دیوار نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ نواز شریف کے والد ویسے ہی انداز سے کاروبار کرتے تھے جیسے دوسرے کاروباری افراد گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے کرتے رہے تھے۔
جب منافع ملتا ہے تو اسے ظاہر نہیں کیا جاتا تھا، آپ یہ پیسے منی لانڈرنگ (حوالہ) کرنے والے کو دیتے تھے اور وہ مختلف بینکنگ چینلز کے ذریعے یہ رقم آپ کو بھجوا دیتا تھا؛ تمام رقم قانونی ہوتی تھی اور کوئی غیر قانونی اقدام نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ رقوم نجی اداروں کی طرف سے بھجوائی جاتی تھیں۔ اور اگر آپ کو رقم بیرون ملک میں چاہئے تو جائیداد خرید لیں، مثلاً آپ یہاں ’’حوالہ‘‘ والے کو پیسے دیں، اُس نے آپ کو وہاں ادائیگی کردی۔
دیوار کے مطابق، شاہد عباسی نے کہا کہ یہ بات میں نواز شریف کے دفاع میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ اُس بات کی وضاحت ہے کہ اُس وقت پاکستان میں کام کیسے ہوتا تھا۔
انہوں نے اصرار کیا کہ عمران خان اور ان کی بہن نے بھی تو یہی کیا۔ مشرف نے بھی کیا۔ سرکردہ پاکستانی کاروباری شخصیات بھی یہی کرتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس بتانے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن مقصد یہ نہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہد عباسی نے کہا کہ کسی بھی کمپنی میں صرف ایک شخص ہوتا ہے جسے ساری بات معلوم ہوتی ہے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اسے سب معلوم ہوتا ہے اور وہ چیف ایگزیکٹو افسر ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی ملک کا سارا منظر نامہ ایک ہی شخص کو معلوم ہوتا ہے - وزیراعظم۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زندہ وزرائے اعظم میں نواز شریف بھی ہیں اور وہ اس پوری کہانی کی تشریح کر سکتے ہیں۔
اسلئے نہیں کہ وہ کوئی راکٹ سائنسدان ہیں بلکہ اسلئے کہ ان میں فطری طور پر اُن معاملات پر توجہ دینے کی صلاحیت موجود ہے جنہیں وہ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں اور اکثر وہ درست ہوتے ہیں۔
اپنے بارے میں وہ (شاہد خاقان عباسی) سمجھتے ہیں کہ اچھی تعلیم کے حصول اور مختلف سطحوں پر تکنیکی و انتظامی امور کے 10؍ سال کے تجربے کے بعد انہیں حکومت میں تقریباً ہر عہدے پر کام کرنے کا موقع ملا ، اسلئے جب مجھے وزیراعظم کا عہدہ ملا تو میں پرسکون انداز میں اس کام کیلئے موزوں ثابت ہوا۔
شاہد عباسی کی رائے میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز ا شرف، چوہدری شجاعت حسین اور میر ظفر اللہ جمالی کے پاس سیاسی تجربہ تو تھا لیکن انہیں سرکاری پیچیدگیوں کا علم نہیں تھا اسلئے وہ نمایاں حصہ ادا نہ کر سکے۔
شوکت عزیز کے پاس تکنیکی معلومات تھی اور تجربہ بھی بہت زیادہ تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سماجی معاملات پر غور کرتے ہوئے حکومت کی پیچیدگیوں کو تکنیکی پہلو سے کیسے ملایا جائے؛ انہیں ملک کے پیچیدہ تانے بانے پر سیاسی فیصلوں کے دور رس اثرات کی سوجھ بوجھ کا بھی علم نہیں تھا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جرنیلوں کو سب پتہ ہے کیونکہ ان کے پاس انتظامی نوعیت کی زبردست حمایت اور انٹیلی جنس کا نیٹ ورک موجود ہے، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس بات کا تجربہ ہے۔
اگر اس میں ایک فوجی رہنما کی بہادری اور اعتماد شامل کر دیں تو بن گئی ترکیب تباہی کی۔ ان کی رائے ہے کہ نواز شریف نے چار سال تک اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی فعال اپوزیشن، مخاصمانہ اور متحرک میڈیا، نیب اور عدلیہ کی موجودگی میں حکومت چلائی، لیکن اس کے باوجود حکومت مناسب اور موثر رہی۔
شاہد عباسی نے چیلنجز کا مقابلہ کرنے، مسائل حل کرنے، کاروباری طبقے کو پراعتماد بنانے، ترقی میں اضافے اور مہنگائی میں کمی لانے، سی پیک، آئی ایم ایف اور تین مخالفانہ صوبوں سے نمٹنے کا کریڈٹ اپنے لیڈر کو دیا۔
موجودہ حکومت کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کو نیب کی جیل کی دیوار نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ عمران خان کی حکومت ملک کی پہلی حکومت ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسی کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے، میڈیا کو مار مار کر تابع کیا جا چکا ہے، عدلیہ بھی حامی ہے جبکہ نیب کو ایک ایسے فعال آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کا کام اپوزیشن کو دبانا ہے جبکہ تمام صوبے بھی تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت کام نہیں کر پا رہی۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔