Time 25 ستمبر ، 2019
بلاگ

اک اور طرح کی کتاب

آغاز اس اعتراف سے ہی درست ہوگا کہ میں دس کالم بھی لکھوں تو اس کتاب کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ یہ ایک ایسی عجیب و غریب کتاب ہے جو نہ پہلے کبھی نظر سے گزری نہ آئندہ، اس کا کوئی امکان بھی نہیں کیونکہ کہ اختر مرزا جیسے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

نوازش نے 100 فیصد درست لکھا کہ ’’اختر نے اپنی زندگی کے 40 سال ادب کی تشنگی کو سیراب کرنے پر صرف کئے ہیں مگر اس شوق کا ذریعہ اپنے فن فوٹو گرافی کو بنایا ہے۔ عکس و الفاظ کا یہ حسین مرقع اختر کی زندگی کا سرمایہ تو ہے ہی لیکن شاید اردو ادب میں بھی اس سے پہلے یا عصر حاضر میں اس کی کوئی مثال دستیاب نہیں۔‘‘

مصنف اختر مرزا بنیادی طور پر ایک باکمال فوٹو گرافر ہے جس نے اپنی پسندیدہ ادبی شخصیات کو تصویروں کے ساتھ اپنی تحریروں کا تڑکا لگاکر ایک شہکار کو جنم دیا۔ بات ادبی سے بھی کچھ آگے کی ہے کہ اس میں صحافتی شخصیات کے ساتھ ساتھ سعید اختر جیسے مصور اور ’’جیو‘‘ فیم لطف اللہ خان مرحوم جیسے ’’دیوانے‘‘ بھی شامل ہیں جو قوم کو نابغہ روزگار ہستیوں کی آوازوں کا خزانہ عطا کرگئے۔ ’’جیو‘‘ پر لطف اللہ خان کے ساتھ قسط وار پروگرام میرا فیورٹ ہوا کرتا تھا۔کتاب کی ابتدا مصنف نے قائداعظمؒ کے ساتھ اپنے والد خان بہادر مرزا محمد دین کی تصویر سے کی جو 1942 میں قائد کے بمبئی والےگھر میں کھینچی، اتاری یاشوٹ کی گئی۔

 یہ قائد اعظمؒ کا وہ گھر ہے جسے حکومت سمیت ہر کوئی ’’جناح ہاؤس‘‘ کہتا اور لکھتا ہے۔ اختر مرزا کا شکریہ کہ آپ نے پہلی بار انکشاف کیا کہ قائد کے اس گھر کا نام ’’جناح ہائوس‘‘ نہیں بلکہ مے فیر "MAYFAIR"تھا۔کتاب کا نام ہے ’’اردو ریاست‘‘کتاب کیا ہے خالص ریشم کی ردا ہے جس پر ستارے ٹانک دیئے گئے ہیں۔

علامہ اقبالؒ سے لے کر غالب تک بلکہ یوں کہئے کہ غالب سے لے کر علامہ تک جیسے زندہ مرحومین کے ساتھ بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جب انٹرویو کئے گئے، دنیا میں موجود تھے، اب کہیں اور آباد ہیں۔ مصنف کی جذباتی، نفسیاتی حس اور تخلیقی کیفیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ 20سال پہلے غالب اکیڈیمی دہلی میں مرزا اسد اللہ خان غالب کی وہ تصویر دیکھی جو مرزا غالب کی وفات سے دو سال پہلے رحمت علی نامی دلی وال فوٹو گرافر نے اتاری تھی۔ لکھتے ہیں۔’’میں نے کیمرے سے اس تصویر کا عکس لیا تو میری آنکھیں مرزا غالب کے ہاتھ اور انگلیوں پر پڑ گئیں لہٰذا میں نے ہاتھ کو علیحدہ انلارج کروا کر کتاب میں لگا دیا ہے تاکہ مرزا غالب کی لمبی انگلیوں اور ناخنوں کو آپ بھی دیکھ سکیں‘‘۔

اس کتاب نے جو میرے دل کو چھو لیا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں شامل بہت سی شخصیات کے ساتھ تھوڑا، زیادہ یا بہت زیادہ تعلق میرا بھی رہا، اس لئے کتاب پڑھنے کے بعد بھی مجھ پر تہہ در تہہ اداسی چھائی ہوئی ہے خصوصاً ان کے حوالہ سے جو کہیں اور جا بسے۔ ان میں احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، اے حمید، احمد فراز، جمیل الدین عالی، منیر نیازی، ڈاکٹر وزیر آغا، بانو قدسیہ، شہزاد احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر انور سجاد، عبداللہ حسین، خالد احمد، ڈاکٹر انور سدید، احمد راہی اور عبداللہ ملک شامل ہیں۔

پہلی بار اندازہ ہوا میں خود کتنا خوش بخت اور ’’قیمتی‘‘ہوں کہ ان انمول لوگوں کی قربت و صحبت نصیب ہوئی۔ زندہ لوگوں میں، اللہ انہیں لمبی صحت مند عمریں عطا فرمائے، جاوید اختر چند ماہ پہلے ملاقات کے لئے تشریف لائے، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، اجمل نیازی سے کبھی ملاقاتیں تھیں، پھر یوں ہوا کہ یہ مصروف ہوتے چلے گئے، میں گوشہ نشین ہو کر محدود ہوتا چلا گیا لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا۔

کچھ کے ساتھ بہت ہی دلچسپ یادیں وابستہ ہیں مثلاً شہزاد احمد کبھی لائل پور آتے تو ہمارے گھر ٹھہرا کرتے۔ مجھ سے بہت سینئر تھے لیکن حدود میں رہتے ہوئے ان سے لامحدود بے تکلفی تھی بلکہ میرے پہلے جاب کا بندوبست بھی شہزاد صاحب نے کیا لیکن میں نے جوائن نہیں کیا کیونکہ نسبت روڈ پر واقعہ اس رسالہ کا دفتر اور مدیرہ مجھے ایک آنکھ نہ بھائے۔ دفتر میلا میلا تھا اور اس کی ایڈیٹر نے میک اپ کچھ زیادہ ہی تھوپ رکھا تھا۔

 میں یہ جاب مسترد کرکے قریب ہی شہزاد صاحب کے دفتر گیا جو لکشمی چوک پر لکشمی بلڈنگ میں تھا۔ شہزاد صاحب اک سائیکل ساز کمپنی کے جی ایم تھے۔ میر ی شکل دیکھتے ہی بولے ’’ہوگیا؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ وجہ بتائی تو بولے ’’اب تیرے لئے خوبصورت دفتر اور خوبصورت ایڈیٹر کہاں سے لائوں، یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ کچھ ہی عرصے بعد مجھے ’’دھنک‘‘ جیسا میگزین اور سرور بھائی (سرور سکھیرا) جیسے ایڈیٹر مل گئے کہ رب شکر خوروں کو شکر دے ہی دیتا ہے۔اسی طرح قتیل شفائی صاحب سے دور کی سلام دعا تھی۔ 

میں جتنا معمولی وہ اتنے ہی غیر معمولی۔ برسوں بیت گئے اور پھر جب میں کالم نگاری کو ڈرائنگ روم سے گھسیٹ کر گلیوں میں لے آیا تو ایک روز یارِ غار ابرار بھٹی نے کہا ’’قتیل شفائی صاحب کا بیٹا نوید قتیل کسٹمز میں میرا کولیگ ہے۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ قتیل صاحب علیل ہیں اور حسن نثارسے ملنے کے خواہشمند‘‘ یوں تعلق ایک نئے فیز میں داخل ہوگیا۔ منیر نیازی نے ’’دھنک‘‘ کے لئے لکھنا شروع کردیا تو مجھ جیسا لوہا منیر جیسے مقناطیس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ منیر نیازی صاحب کے آخری چند سال ہم نے بہت سی شامیں اکٹھے گزاریں۔ عبداللہ حسین سے پہلی ملاقات ہندوستان میں ہوئی۔ 

میں نے کہا ’’آپ لیجنڈہو‘‘ ہنس کر بولے ’’لیجنڈ وہ ہوتا ہے جس کے جملے محاورے بن جائیں۔ ہمارے گھر میں کسی نے کسی کو دھمکی دینی ہو تو کہتا ہے ’’تمہارا تورا بورا کر دوں گا‘‘ یہ جملہ تمہی نے لکھا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اپنے ظاہری قد سے بھی کہیں لمبے ہیں‘‘۔اسی طرح عبداللہ ملک جو بنیادی طور پر شاہ جی (عباس اطہر) کے دوست تھے۔ تب میری رہائش بھی ماڈل ٹائون میں تھی اور ملک صاحب کی بھی۔ عباس اطہر اور عبداللہ ملک جب وہاں شامِ غریباں کے لئے اکٹھے ہوتے ....... میری ’’پیشی‘‘ یا ’’حاضری‘‘ لازمی تھی۔ میں منو بھائی، عباس اطہر اور عبداللہ ملک کو ’’مٹھے بابے‘‘ کہا کرتا تھا۔

تینوں نہیں رہے اور میں خود ’’بابا‘‘ بن گیا۔میں نے تو اس کتاب پر قلم اٹھاتے پہلا جملہ ہی یہ لکھا ہے کہ میں دس کالم بھی لکھوں تو اس کتاب کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا کہ ایک طرف سے پکڑوں تو دوسری طرف سے نکل جاتی ہے۔ اس کے سحر نے میرے اعصاب اس طرح معطل کردیئے کہ میں یادوں کی بھنور میں نیم بائولا ہو رہا ہوں...... اک اور یاد آئی۔

 منٹو صاحب کے مرشد تھے باری علیگ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے مصنف۔ ان کے بیٹوں اور عزیزی عثمان بھٹہ کے ماموں مسعود باری ، محمود باری سے پیار محبت تھا۔ پرانی انار کلی میں ان کا تاریخی ڈیرہ۔ ایک دن محمود باری کا فون آیا ’’آج شام ہمارے ساتھ‘‘ میں نے مصروفیت کے باعث معذرت چاہی۔ کہا ’’اک بہت بڑا آدمی ملنا چاہتا ہے‘‘۔ شام ڈھلے چلا گیا تو دیکھا وہ بہت بڑا آدمی تو بہت ہی بڑا نکلا۔ یہ تھے احمد راہی جو اس کتاب میں اپنی اہلیہ اور صاحب زادے سمیت موجود ہیں۔کتاب کیا ، اپنی قسم کی طلسم ہوشربا ہے۔شکریہ اختر مرزا......... آپ کے کیمرے اور قلم کا بھی شکریہ!۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔