05 اکتوبر ، 2019
مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجا چکے ہیں اور 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف کوچ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے مگر اُن کے لشکر میں شامل میمنہ اور میسرہ ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہیں۔
پیپلز پارٹی تو پہلے ہی اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار تھی مگر مسلم لیگ (ن) بھی مصلحت پسندی کی دلدل میں دھنس چکی ہے اور ’’تندی بادمخالف‘‘ سے گھبرایا ’’شہباز‘‘ پرواز کرنے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے ’’مذہب کارڈ‘‘ کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا گیا حالانکہ سیاست میں ’’پتے‘‘ ہی بازی کھیلا کرتے ہیں۔
اقتدار کی وہ مضبوط کرسی جس پر قائد عوام براجمان تھے، ڈولنے لگی تو مذہب کارڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے شراب نوشی اور قمار بازی پر پابندی عائد کردی گئی، جمعہ کے روز ہفتہ وار سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا گیا۔ اُس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات کوثرنیازی اپنی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ میں مذہب کارڈ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’یوم تشکر جس انداز میں منایا گیا اس کا ہمیں کیا فائدہ ہوا؟
بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ آئین میں اس ترمیم کا جو کریڈٹ حکومت کو ملنا چاہئے تھا، وہ نہیں ملا، ان کو شکایت تھی کہ ’مولوی لوگ زبردستی اس کا سہرا اپنے سرباندھ رہے ہیں جس کے لئے ہمیں لوگوں کو اصل صورتحال بتانا چاہئے‘‘۔
پیپلز پارٹی اب بھی سوشلزم کی بات کرتے ہوئے اسلام کا سابقہ لگانا نہیں بھولتی کیونکہ اسے مذہب کارڈ کی افادیت و اہمیت کا بخوبی علم ہے۔ اگر مذہب کارڈ اور مولانا سے کوئی دقت ہوتی تو پیپلزپارٹی ماضی میں انہیں ہرگز شریک اقتدار نہ کرتی۔
گویا معاملہ مذہب کارڈ کا نہیں بلکہ کوئی سیاسی مصلحت آڑے آرہی ہے یا پھر ابھی تک امپائر کی طرف سے اشارہ نہیں ملا۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں جماعتوں کی طرف سے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ آزادی مارچ کو کم از کم ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دیا جائے یعنی اکتوبر کے بجائے نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع کی کوئی تاریخ دی جائے۔
اسی ایجنڈے کے تحت ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا اور پھر کہا گیا کہ آپ کُل جماعتی کانفرنس بلائیں، تمام اپوزیشن جماعتوں سے رائے لیں اور پھر اتفاق رائے سے آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں۔ اگر اسی انداز میں پیشرفت کی جاتی تو بات یقیناً نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع تک جا پہنچتی۔
دونوں بالغ نظر سیاسی جماعتیں جو سویلین بالادستی اور جمہوریت کی علمبردار ہیں اور سیاست کے داؤ پیچ سے بھی خوب واقف ہیں، اگر ان کی طرف سے آزادی مارچ کو آگے لے جانے پر اصرار کیا جا رہا تھا تو یقیناً اس میں کوئی حکمت پنہاں ہوگی۔
ہاں مسلم لیگ(ن) یا پیپلز پارٹی کے اکابرین چاہیں تو اس حوالے سے شکوک و شبہات دور کر سکتے ہیں۔ اکتوبر میں تو کسی حد تک اسلام آباد کی سردی برداشت کی جا سکتی ہے مگر نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں اسلام آباد جیسے شہر میں خیمہ زن ہونے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے جب اگست 2014 میں اسلام آباد پر چڑھائی کی تھی تو 21 اکتوبر کو علامہ طاہر القادری نے بوریا بستر سمیٹنے کا اعلان کردیا تھا کیونکہ شدید سردی کے باعث دھرنا جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔
پی ٹی آئی کے لوگ تو شام کو آتے اور پھر رات گئے گھروں کو لوٹ جاتے تھے اس لئے انہوں نے 16دسمبر کو سانحہ اے پی ایس تک دھرنا جاری رکھا۔ گویا آزادی مارچ ملتوی کرنے کی بات دراصل ٹرک کی بتی تھی۔
مولانا بھی بہت منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور شاید انہوں نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ ان کے لشکر میں میمنہ اور میسرہ کے طور پر شامل ہونے والے ان دنوں جماعتوں کے دل بھلے ان کے ساتھ ہوں مگر ان کی تلواریں اپنے جوہر دکھانے کو تیار نہیں۔ اس لئے انہوں نے اکیلے ہی پیشقدمی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ملین ڈالر کا سوال مگر یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن اس مہم جوئی میں کامیاب ہو پائیں گے؟ پاکستان میں احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے حکومتیں گرانا تو ہرگز اچنبھے کی بات نہیں مگر احتجاجی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں ویسا پرتشدد احتجاج نہیں ہو سکتا جیسا مصر کے تحریر اسکوائر میں ہوا اور پھر حسنی مبارک اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں تو راولپنڈی کے موسم کا سازگار ہونا سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ میں گزشتہ ماہ لکھے گئے کالم میں بتا چکا ہوں کہ احتجاجی سیاست بتدریج رنگ لاتی ہے اور پہلی ہی کوشش میں کامیابی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
مولانا کے لئے سب سے بڑا چیلنج اسلام آباد پہنچنے کا ہوگا، میرے خیال میں اگر کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہ ہوئی تو حکومت ریاستی اداروں کے تعاون کیساتھ پوری طاقت سے اس سیلاب بلا کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرے گی اور کنٹینر فراہم کرنے کی باتوں پر یوٹرن لے لیا جائیگا لیکن اگر مولانا کسی نہ کسی صورت ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے آپشنز کیا ہیں؟ پہلا آپشن تو یہ ہے کہ کامیاب دھرنے کے نتیجے میں کاروبار حکومت مفلوج ہو جائے اور وزیراعظم ازخود مستعفی ہوجائیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سیاسی بندوبست کے تحت اِن ہاؤس تبدیلی آئے اور وہ قومی حکومت جس کی چہ میگوئیاں کئی ماہ سے جاری ہیں اس کا قیام عمل میں آئے، آخری آپشن یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کو سپریم کورٹ آکر مقدمہ لڑنے کی دعوت دی گئی تھی اسی طرح مولانا کو عدالت مدعو کر لیا جائے اور پھر کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں حکومت ختم ہو جائے۔
میری دانست میں محولابالا تینوں آپشنز میں سے کوئی ایک بھی فی الحال قابل عمل نہیں۔ آزادی مارچ سے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر کے حکومت کو دباؤ میں تو لایا جا سکتا ہے مگر اکتوبر میں مارچ کا فی الحال کوئی امکان نہیں، اس کیلئے مارچ کا انتظار کرنا پڑے گا۔