دنیا
Time 07 اکتوبر ، 2019

ایران اور سعودی عرب کے درمیان خاموش مذاکرات کا انکشاف

فوٹو: فائل

مشرق وسطیٰ کو جنگ کے دہانے تک پہنچانے والی برسوں سے جاری بڑھتی دشمنی اور اثر و رسوخ میں اضافے کے مقابلے کے بعد اب ایران اور سعودی عرب نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے بالواسطہ طور پر’’خاموش مذاکرات‘‘ کا آغاز کر دیا ہے۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات اگرچہ بالواسطہ ہیں لیکن اس کے باوجود اسے شاندار پیشرفت کہا جا سکتا ہے کیونکہ چند ہفتوں قبل ہی الزامات اور سخت بیانات کی شدید جنگ جاری تھی اور سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ ہوا جس کے بعد صورتحال تیزی سے بگڑتی نظر آئی۔

دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کے خطے بھر میں دُور رس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 14؍ ستمبر کے حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف کارروائی سے انکار کے بعد ہی سعودی عرب نے مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دی تھیں۔

ممکن ہے کہ اس حل کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو تنہا کرنے کے لیے عرب ممالک کا اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ ناکام ہو جائے۔

حال ہی میں پاکستان اور عراق کے سینئر عہدیداروں نے بتایا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم سے کہا ہے کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایران کے صدر سے بات کریں۔

ایران نے ایسی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پس پردہ یا کھل کر سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ جدہ میں گزشتہ ہفتے ملاقات میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا وہ جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وزیراعظم کو اس معاملے میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ اس کے بعد عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے چند روز بعد ہی عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے بھی جدہ کا دورہ کیا تھا۔ 

سینئر عراقی عہدیدار کے مطابق شہزادہ محمد نے وزیراعظم عبدالہادی مہدی سے ایران کے ساتھ ثالثی کی بات کی جس پر عراق کی طرف سے تجویز دی گئی کہ وہ مذاکرات کے لیے بغداد کو ملاقات کا مرکز بنا سکتے ہیں۔

سعودی عرب کے دورے کے بعد عراقی وزیراعظم نے بغداد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور ایران نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی یمن نے بھی اچھا ردعمل دکھایا ہے۔

عادل عبدالمہدی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کوششوں کا بہتر نتیجہ نکلے گا۔ دوسری جانب ایران نے بھی اس خیال کی تائید کی ہے۔

ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی کا کہنا ہے کہ ایران سعودی عرب اور خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے کیونکہ ایران سعودی مذاکرات کے نتیجے میں خطے میں سیکیورٹی اور سیاست سے جڑے کئی مسائل حل ہوں گے۔

بدھ کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی کہا کہ ہم سعودی عرب کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب ترجیح دوستانہ تعلقات ہوں نہ کہ امریکا سے اسلحے کی خریداری۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ایران نے ہمیشہ سے ہی سعودی عرب کو امریکا اور اسرائیل سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے انکار کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایران سعودی مذاکرات کے لیے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سابق کو آرڈینیٹر برائے مشرق وسطیٰ فلپ گورڈن کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے سعودی عرب ایران کے ساتھ تعلقات کی راہیں تلاش کر رہا ہے کیونکہ یہ سعودی عرب کے لیے ایک بھیانک خواب ہوگا کہ وہ اس توقع کے ساتھ ایران کے ساتھ تصادم کی راہ پر گامزن ہو کہ امریکا مدد کرے گا اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ امریکا مدد نہیں کرے گا۔ 

فلپ نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب پر واضح کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ ایران پر حملے کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے نامور فیلو مارٹن انڈائیک کہتے ہیں کہ ایران مخالف اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لگتا ہے کہ محمد بن سلمان ایران کے ساتھ معاہدے کے لیے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔

اتحاد کے ٹوٹ پھوٹ کے اشارے کچھ یوں ہیں کہ ٹرمپ کے عقابی سوچ کے حامل صلح کار جان بولٹن گھر جا چکے ہیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنے سیاسی کیرئیر کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ ٹرمپ خود بھی حالیہ دنوں میں ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی کوششیں کر چکے ہیں۔

مزید خبریں :