09 اکتوبر ، 2019
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے شیرلاک ہومز سمجھے جانے والے بیرسٹر شہزاد اکبر گزشتہ چند ماہ سے میڈیا سے لاپتہ ہیں۔
بصورت دیگر پریس کانفرنسوں سے خطاب اور ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کا شوق رکھنے والے شہزاد اکبر نے گزشتہ کئی ہفتوں سے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، اور ٹاک شوز میں بھی بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔ بیرون ممالک کے بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے جمع کیے گئے 200 ارب ڈالرز کی واپسی کیلئے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم کیے گئے اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر فون بھی نہیں اٹھا رہے۔ پیغامات کا جواب بھی نہیں دے رہے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ان کے اسٹاف سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بیریسٹر صاحب باہر گئے ہیں اور میٹنگوں میں مصروف ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایک سے زیادہ مرتبہ کہا ہے کہ بیرون ملکوں کے بینکوں میں غیر قانونی طور پر جمع کیے گئے پاکستانیوں کے 190 ارب ڈالرز کی رقم پاکستان واپس لانا مشکل ہے۔
بیرسٹر کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آ رہی جس سے یہ معلوم ہو سکے آخر ایسی صورت میں اے آر یو کے باقی رہنے کا جواز کیا ہے کیونکہ حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کے اربوں ڈالرز واپس نہیں لا سکتی۔
بیرسٹر شہزاد اکبر وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے احتساب ہیں۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد، پی ٹی آئی حکومت نے اے آر یو تشکیل دیا جس کا مقصد بیرون ملک چھپائے گئے اثاثوں کی واپسی تھی۔ اس یونٹ میں اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام بطور رکن شامل ہیں۔
اپنی ابتدائی پریس کانفرنسز میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ اے آر یو کے ارکان کو دبئی اور برطانیہ میں 10 ہزار جائیدادوں کی تفصیلات مل گئی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ 10 ہزار جائیدادوں میں سے آدھی کی تفصیلات پہلے ہی معلوم تھیں لیکن کوئی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی احساس ہو چلا ہے کہ وہ غیر ممالک سے پیسے واپس نہیں لا سکتی۔ چند ماہ قبل تک، شہزاد اکبر سرگرمی کے ساتھ نیب کے ساتھ رابطے کرتے ہوئے اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف کیسز کا کھوج لگا رہے تھے۔
وہ اکثر و بیشتر پریس کانفرنسز کرکے شریف اور زرداری خاندان کی مبینہ کرپشن کا بتاتے۔ کہا جاتا ہے کہ شہزاد اکبر نے اپنی آخری پریس کانفرنس اگست میں کی تھی اور مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کیخلاف چوہدری شوگر ملز میں مبینہ منی لانڈرنگ کی چارج شیٹ جاری کی تھی۔ اگلے ہی دن نیب نے مریم اور یوسف کو گرفتار کر لیا۔
شہزاد اکبر نے الزام عائد کیا تھا کہ چوہدری شوگر ملز شریف فیملی کیلئے منی لانڈرنگ کا گڑھ تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ 2008ء میں مل کے شیئرز مریم نواز کو منتقل کیے گئے جنہوں نے بعد میں 70 لاکھ روپے 2010ء میں یوسف عباس کو منتقل کیے۔ میڈیا ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزاد اکبر کی گزشتہ کئی پریس کانفرنسز شریف خاندان کی مبینہ کرپشن پر بات کیلئے منعقد کی گئی تھیں۔ کبھی کبھار پریس کانفرنسز میں آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کے کیس پر بھی بات کی جاتی تھی۔
جولائی میں شہزاد اکبر نے چار پریس کانفرنسز کیں۔ ان تمام میں انہوں نے شریف فیملی اور ان کی مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔ اخبارات کے ریکارڈ کو دیکھیں تو گزشتہ کئی مہینوں میں شاید ہی کبھی شہزاد اکبر نے اثاثہ ریکوری یونٹ کے بنیادی مقصد پر بات کی ہو۔
سرکاری دعوؤں کے مطابق، ریکوری یونٹ نے اب تک 530 ملین روپے واپس لیے ہیں جو غیر قانونی طور پر باہر بھجوائے گئے تھے۔ چند روز قبل ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی نے کہا کہ گزشتہ 20سال کے دوران پاکستان سے سالانہ 6 ارب ڈالرز باہر گئے جو قانونی طور پر بھجوائی گئی رقم کا 85 فیصد حصہ ہے اس لیے انہیں واپس نہیں لایا جا سکتا۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ پیسے باہر بھیجنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ مالدار پاکستانیوں کے پاس دبئی میں گھر اور بیرون ملک جائیداد اور اثاثے ہیں۔ وہ معاشی خوشحالی اور انٹرپرائزز (کمپنیوں) کے کردار کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
ایف بی آر چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سے 90ء کی دہائی میں بھیجی گئی رقم بہت زیادہ تھی اور سرمایہ کاروں نے بھی بیرون ممالک سکونت کا انتخاب کیا تھا۔