13 اکتوبر ، 2019
حضرت یحییٰ علیہ السّلام اپنے والد، حضرت زکریا علیہ السّلام کی طرح اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ آپؑ کا نام خود اللہ جل شانہ نے تجویز فرمایا۔ ارشادِ باری ہے’’اے زکریاؑ! ہم تمھیں ایک ایسے فرزند کی بشارت دیتے ہیں، جس کا نام ’’یحییٰ‘‘ ہو گا۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا‘‘ (سورۂ مریم 7 ) ۔گویا دنیا میں سب سے پہلے آپؑ ہی کا نام’’ یحییٰ‘‘ رکھا گیا اور آپؑ اپنی صفات میں بھی سب سے منفرد تھے۔ حضرت یحییٰ اپنے والد، حضرت زکریا ؑکی دعاؤں کا ثمرہ تھے، جنھیں اللہ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی۔
حضرت یحییٰ کی والدہ، ایشاء اور حضرت مریم ؑ کی والدہ، حنہ آپس میں حقیقی بہنیں تھیں، یوں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ آپس میں خالہ زاد تھے ( عام طور پر والدہ کی خالہ کو بھی خالہ ہی کہہ دیا جاتا ہے)۔ نیز، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ سے عُمر میں چھے ماہ بڑے تھے۔
مکان بنایا، نہ شادی کی
حضرت یحییٰ کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے، یہاں تک کہ آنسوؤں کی وجہ سے رخساروں پر نشان پڑ گئے تھے۔ ابنِ عساکر نے روایت کی ہے کہ ایک روز والدین اُن کی تلاش میں نکلے، تو دیکھا کہ وہ جنگل میں ایک قبر کھودے اُس پر کھڑے زار و قطار رو رہے ہیں۔ والدین نے فرمایا’’ بیٹے! ہم تین دن سے تمھاری تلاش میں ہیں۔‘‘ اس پر آپؑ نے آخرت کے حوالے سے ایسی پُراثر گفتگو کی کہ والدین رو پڑے۔ حضرت یحییٰ بے حد حلیم، رقیق القلب، پاک باز،عابد و متقّی، اِستغنا و قناعت سے سرشار، شرم و حیا کے پیکر اور شیریں کلام تھے۔ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے۔ غذا بقدرِ ضروت اور لباس اتنا ہوتا، جو ستر پوشی کے لیے کافی ہو۔
اُنھیں جنگلوں، بیابانوں سے محبّت تھی، زندگی کا زیادہ تر حصّہ وہیں گزارا۔ جہاں درختوں کے پتّے اور شہد بہ طورِ غذا تناول فرماتے، پیاس لگتی تو نہر سے پانی پی لیتے۔ زندگی بھر شادی نہیں کی۔ حضرت عیسیٰ اُون کا لباس پہنتے، جب کہ حضرت یحییٰ ؑ جانوروں کے بالوں کا لباس زیبِ تن کرتے۔
درہم و دینار تھے، نہ کوئی غلام یا باندی۔ کوئی مخصوص ٹھکانا بھی نہ تھا، جہاں رات ہوجاتی، وہیں بسیرا کر لیتے۔ حضرت جبرائیل امینؑ جنگل ہی میں وحی لے کرحاضر ہوئے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ’’ بچّوں نے حضرت یحییٰ ؑکو بچپن میں کہا ’’ آؤ چل کر کھیل کود کریں‘‘، تو آپؑ نے فرمایا’’ ہم کھیل کود کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔‘‘
حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوّت سب سے پہلے تسلیم کرنے والے حضرت یحییٰ ؑتھے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اولادِ آدمؑ میں کوئی ایسا نہیں، جس سے گناہ سرزد نہ ہوا ہو، سوائے حضرت یحییٰؑ کے‘‘ (مسندِ احمد)۔ قرآنِ پاک میں آپؑ کا ذکر اُن چار سورتوں میں آیا ہے، جن میں حضرت زکریا کا بھی ذکر ہے، یعنی سورۂ آلِ عمران، سورۃ الانعام، سورۂ مریم اور سورۃ الانبیاء۔
اوصافِ جمیلہ
اللہ عزّو جل نے حضرت یحییٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی’’اے یحییٰ ؑ! ہماری کتاب مضبوطی سے تھام ۔ اور ہم نے اُن کو لڑکپن ہی میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی اور وہ پرہیز گار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے اور اُن پر سلام ہو، جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں گے اور جس دن زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے‘‘(سورۂ مریم12 تا 15)۔ حضرت یحییٰ ؑ ابھی کم عُمر ہی تھے کہ پروردگارِ عالم نے فرشتوں کے ذریعے تورات حفظ کروادی اور اُنہیں حکم دیا کہ آسمانی کتاب کا جو علم تمہیں عطا کیا گیا ہے، اُس پر خود بھی عمل کریں اور اپنی قوم کو بھی اُس کا درس دیں۔
اِس کے ساتھ ہی اُنہیں بچپن ہی میں علم و دانائی، عقل و حکمت، طہارت و پاکیزگی اور پرہیز گاری عطا فرمائی گئی اور اُن میں وہ تمام خُوبیاں یک جا کر دی گئیں، جو ایک نیک، پارسا اور صاحبِ ایمان بندے کی شان ہیں۔ گناہوں، نافرمانیوں اور سرکشی سے کوسوں دُور، والدین کے فرماں بردار اور مخلوقِ خدا کے خدمت گزار۔
حضرت یحییٰ ؑ اپنے والدین ہی نہیں، بنی اسرائیل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام تھے۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تینوں حالتوں میں سلامتی ملی، یعنی پیدائش کے دن، موت کے دن اور یومِ حشر۔ دراصل یہ تینوں مواقع کسی بھی انسان کے لیے سخت وحشت ناک ہیں۔
انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے، جو اس کی مختصر سی تاریک دنیا سے بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ موت کےدن اُس کا واسطہ ایک اور دنیا سے پڑتا ہے۔ پھر جب اُسے قبر سے زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا، تو وہ اپنے آپ کو میدانِ حشر کی ہول ناکیوں میں گِھرا پائے گا۔ پس اِس آیت میں ان تینوں مقامات اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت یحییٰ ؑکے لیے سلامتی کا اعلان کیا گیا۔
پانچ خاص صفات
سورۂ آلِ عمران کی آیت 39میں اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت یحییٰ ؑکی پانچ خاص صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ابھی وہ عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (زکریاؑ) اللہ آپؑ کو یحییٰ ؑ کی بشارت دیتے ہیں۔
جن کے احوال یہ ہوں گے کہ وہ کلمۃ اللہ (یعنی حضرت عیسیٰ ؑ)کی نبوّت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور (دوسرے) مقتدائے دین ہوں گے اور (تیسرے) اپنے نفس کو (لذّات سے) بہت روکنے والے ہوں گے اور (چوتھے) نبی بھی ہوں گے اور (پانچویں) اعلیٰ درجے کے شائستہ ہوں گے۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت عیسیٰ ؑکو’’کلمۃ اللہ‘‘ اِس لیے کہتے ہیں کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلافِ عادت بلاواسطہ باپ پیدا کیے گئے۔ اس طرح اپنے نفس کو لذّات سے روکنے میں سب مباح خواہشات سے بچنا شامل ہے۔ جیسے اچھا کھانا، اچھا پہننا، نکاح کرنا وغیرہ۔ ضبطِ نفس کی صفت بیان کرنے سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل طریقہ یہی ہے، حالاں کہ احادیث سے نکاح کی فضیلت ثابت ہے۔
سو، اس معاملے کی تحقیق یہ ہے کہ جس شخص کی حالت حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی سی ہو کہ اُس پر آخرت کا خیال اس قدر غالب ہو کہ بیوی کی ضرورت محسوس کرے اور نہ ہی بیوی بچّوں کے حقوق ادا کرنے کی فرصت ہو، تو ایسے شخص کے لیے یہی افضل ہے کہ شادی نہ کرے۔ اسی وجہ سے جن احادیث میں نکاح کی فضیلت آئی ہے، اُن میں یہ بھی قید ہے’’ جو آدمی نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور زوجیت کے حقوق ادا کر سکتا ہو، تو اُس کے لیے نکاح کرنا افضل ہے، ورنہ نہیں‘‘ (بیان القرآن)۔
پانچ باتوں کا حکم
حضرت حارث اشعریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ ؑکو پانچ باتوں کا حکم فرمایا کہ اُن پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی عمل کا حکم دو۔‘‘لہٰذا اُنہوں نے بنی اسرائیل کو بیتُ المقدِس میں جمع کیا اور ارشاد فرمایا’’ اللہ جل شانہ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے
(1) اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کی عبادت نہ کرو اور نہ ہی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ۔ مشرک کی مثال اُس غلام کی سی ہے، جسے اُس کے مالک نے اپنی رقم سے خریدا، مگر غلام جو کچھ کماتا ہے، وہ مالک کی بجائے کسی دوسرے شخص کو دے دیتا ہے۔ اب تم ہی بتائو، کون ایسے غلام کو پسند کرے گا؟ لہٰذا یاد رکھو! جب اللہ نے تمھیں پیدا کیا ہے اور وہی تمھیں رزق دیتا ہے، تو تم پر لازم ہے کہ صرف اُسی کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
(2) مَیں تمھیں نماز کا حکم دیتا ہوں۔ جب تم خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہو، تو اللہ تعالیٰ اپنا رُخ تمہاری طرف کر لیتا ہے۔ لہٰذا، جب نماز پڑھو، تو کسی اور طرف دھیان مت لگائو۔
(3) مَیں تمھیں روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال یوں دی ہے، جیسے کسی جماعت میں ایک شخص کے پاس مُشک کی پوٹلی ہو، تو مُشک خود بہ خود پوری جگہ کو مہکا دے گی۔ بے شک روزے دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مُشک سے بھی زیاد معطّر، مقبول اور پسندیدہ ہے۔
(4) مَیں تمہیں صدقے کا حکم دیتا ہوں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کو دشمنوں نے اچانک آ دبوچا ہو اور اُس کے ہاتھوں کو گردن سے باندھ کر قتل کرنے کے لیے چلے جا رہے ہوں، اُس نااُمیدی کی حالت میں وہ کہے گا کہ’’ کیا میرا پورا مال لے کر میری جان بخشی ہو سکتی ہے؟‘‘ اور اثبات میں جواب پا کر جان کے بدلے ساری دولت قربان کرنے کو تیار ہو جائے گا۔
(5)پانچواں حکم یہ ہے کہ دن رات کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہا کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جو دشمن سے بھاگ رہا ہو اور دشمن تیزی سے اُس کے تعاقب میں ہو۔ وہ شخص بھاگ کر کسی مضبوط قلعے میں پناہ گزین ہوجائے‘‘(مسندِ امام احمد)۔
حضرت یحییٰ ؑکا سَر رقاصہ کی نذر
حضرت یحییٰ ؑکی وفات کے بارے میں مفسرّین نے مختلف واقعات تحریر کیے ہیں، جو یہودو نصاریٰ کی کُتب سے لیے گئے ہیں۔ تاہم مفسرّین کی اکثریت نے جس واقعے کو بیان کیا ہے، وہ لوقا کی انجیل سمیت یہودو نصاریٰ کی کئی کُتب میں درج ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیہ کا بادشاہ’’ ہیرود ‘‘ ایک عیّاش شخص تھا، جس کی وجہ سے پورے مُلک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اُس نے اپنے حقیقی بھائی، فلپ کی بیوی، ہیرودیاس کو بغیر نکاح اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔
حضرت یحییٰ چوں کہ نبی تھے اور دعوتِ حق کا فریضہ سرانجام دیتے تھے، اُنہوں نے بادشاہ کی ان فحش حرکات کے خلاف آواز بلند کی، جس کے نتیجے میں اُنہیں گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔تاہم، بادشاہ اُن سے ڈرتا بھی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آپؑ اللہ کے نبی اور نیک و پارسا انسان ہیں، نیز عوام میں بڑی عزّت ہے، لیکن بادشاہ کی داشتہ، ہیرودیاس حضرت یحییٰ ؑ کی تعلیمات کو اپنے اور اپنی جیسی دوسری بدکار عورتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتی تھی۔
چناں چہ وہ آپؑ کی جان کے درپے ہو گئی۔ اسی اثناء میں بادشاہ کی سال گرہ کے سلسلے میں محل میں رقص و موسیقی کی محفل جَمی، جس میں ہیرودیاس کی جواں سال، خُوب صورت بیٹی نے رقص کے ہیجان خیز تیر چلا کر بادشاہ کو اپنے جال میں پھانس لیا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر اُس سے کہا’’ مانگ کیا مانگتی ہے…؟‘‘ بیٹی نے اپنی ماں سے مشورہ کیا،وہ تو پہلے ہی ایسے موقعے کی تاک میں تھی، لہٰذا بیٹی سے کہا’’ یحییٰ ؑکا سَر مانگ لے‘‘۔ بیٹی نے بادشاہ کے سامنے ادب سے جُھک کر عرض کیا’’ اے بادشاہ سلامت! مجھے یحییٰ ؑکا سَر تھال میں رکھ کر منگوا دیجیے۔‘‘ بادشاہ یہ سُن کر غم گین تو ہوا، مگر محبوبہ کی بیٹی کی فرمائش کیسے رَد کر سکتا تھا۔
چناں چہ اُس نے فوراً قید خانے سے حضرت یحییٰ ؑ کا سَر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھال میں سجا کر محبوبہ کی رقاصہ بیٹی کی نذر کر دیا۔کہتے ہیں کہ دمشق کی جامع مسجد ،بنی اُمیہ کے ہال میں آپؑ کا سَرمبارک دفن ہے۔ اُموی خلیفہ، ولید بن عبدالملک نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ دَورانِ تعمیر یہاں ایک غار دریافت ہوا۔
اطلاع ملنے پر خلیفہ خود غار میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ ایک صندوق میں انسانی سَر رکھا ہوا ہے اور صندوق پر تحریر ہے’’ یہ حضرت یحییٰ ؑبن زکریا ؑکا سَر ہے۔‘‘ اُن کا چہرہ اور بال اپنی اصلی حالت میں تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی شہید ہوئے ہوں۔