29 اکتوبر ، 2019
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، بھائی یہ دنیا گول ہے، گول گول ہی گھومتی ہے، کل جو آپ بوتے ہیں وہی فصل آج کاٹنا پڑتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے پہلے تولو پھر بولو مگر کون سنتا ہے۔
اب تماشا یہ لگا ہے کہ دھرنا دھرنا کردی میں آپے دھرنا ہوئی۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا پہیہ گول گول گھمائیں تو دیکھتے جائیں کہ کل کے سیاسی دشمن آج کے سیاسی دوست کیسے بنتے ہیں۔ خان صاحب جنہیں ملک دشمن، غدار قرار دیتے تھے آج انہی اتحادیوں اور سیاسی مخالفین کی منتیں، مرادیں اتار رہے ہیں۔ کیا ایم کیو ایم تو کیا بی این پی مینگل مانگے تانگے سے بھری یہ ٹرین اوور لوڈنگ کے باعث بار بار ہچکولے کھا رہی ہے۔ ڈرائیور بھی پریشان ہے کہ اس لڑھکتی، ہچکولے کھاتی ٹرین کو کیسے سنبھالے؟
خان صاحب کی حیثیت بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کے ٹکٹ چیکر جیسی ہے اور بے ٹکٹ سواریوں کی حالت یہ ہے کہ چھوٹے سے سفر میں بھی لمبی لمبی فرمائشیں، خواہشیں اور شرارتیں ننھے منے بچوں جیسی، کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ خان صاحب بھٹو بننے کے چکر میں مارے گئے مگر کہاں قائدِ عوام اور کہاں عمران خان فہم و فراست میں کافی فاصلہ ہے۔
بھٹو کو اپنی ذہانت، علم اور تاریخ پر مکمل عبور تھا اور سیاسی بصیرت کی انتہا مگر پھر بھی کمزور اپوزیشن اور عالمی سازشوں کے ہاتھوں زچ ہو گئے۔ اپنے مضبوط اصولوں، عزم و ہمت اور قریبی ساتھیوں کی دھوکے بازی کے باعث تختہ دار پر لٹک گئے۔ بھٹو کے خلاف کیا کیا سازشیں ہوئیں، کس کس نے کیا کیا کھیل رچایا، یہ سیاہ تاریخ ہے لیکن سچ یہی ہے کہ انسان کو جب ضرورت سے زیادہ اعتماد اور طاقت ملتی ہے تو اس کا اصل امتحان وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
بھٹو بھی اسی احساس کا شکار تھے مقررہ مدت سے ایک سال قبل عام انتخابات کا اعلان محض یہی سوچ کر کیا کہ بکھری اپوزیشن جماعتیں انفرادی طور پر ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ پیر پگاڑو مرحوم کی قیادت میں ’’نو ستارے‘‘ ایسے چمکے کہ بھٹو کے پاؤں لڑکھڑانے لگے۔
ایوانِ وزیراعظم میں راتوں کی نیندیں حرام ہونے لگیں، بھٹو چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح ’’نو ستاروں‘‘ کو چاند گرہن لگ جائے اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی قیادت کسی بھی صورت عوامی مقبولیت کی حدوں کو چھونے والے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے سپرد نہ ہو اور تمام تر حربے استعمال کرکے بظاہر ایک غیر مؤثر مگر جید عالمِ دین مولانا مفتی محمود الرحمٰن کو پی این اے کا سربراہ بنوانے میں کامیاب ہو گئے مگر ہوا بھٹو کی سوچوں سے بالکل اُلٹ۔
مولانا مفتی محمود کی قیادت میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شروع ہونے والی تحریک تمام مسالک کے علماء کی شرکت سے اچانک نفاذِ نظامِ مصطفیٰ تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ باوجود اس کے کہ بھٹو نے اس تحریک کو سیاسی طور پر کچلنے کے لئے جمعہ کی چھٹی، شراب خانوں، جوأ خانوں اور ریس کلبوں پر پابندی جیسے تمام اسلامی اقدامات اور اپوزیشن سے طویل بامعنی مذاکرات کئے مگر اس تحریک کی شدت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور پھر پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب شروع ہوا جو ابھی تک بغیر کسی وقفے کے تسلسل سے لکھا جا رہا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایسے گرداب میں پھنس جاتا ہے کہ اس کی سوچ آگے بڑھنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت آج کل بڑے خان صاحب کی بھی نظر آتی ہے۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن۔ سمجھ نہیں آرہا کہ خان صاحب سے شکوہ کریں یا مولانا صاحب سے۔ ہر طرف بکھری سوچوں کا ماتم ہے، رنگ برنگی بے سُری بانسریاں بج رہی ہیں، دلاسے پہ دلاسے دیئے جا رہے ہیں، مستقبل کے وعدے ہو رہے ہیں مگر حالات کی سنگینی کا کسی کو ادراک نہیں کہ ہم کس بُری طرح شکنجے میں کس دیے گئے ہیں۔
ہمارے مزاج میں حیوانیت، بربریت، جارحیت، ہوس، ہراسگی، لالچ، عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ انسانیت، رواداری، برداشت، صبر و تحمل اور ایثار جیسے الفاظ ان کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔
جب سے مولانا فضل الرحمٰن نے عمرانی سرکار کے خلاف لنگر لنگوٹ کسا ہے حکومتی ایوانوں میں ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے اور عوام الگ سے سوالیہ نظروں سے کبھی حکمرانوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں، کبھی اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں اور اپوزیشن کی طرف گھورتی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟
دوسری طرف سیاسی عامل، بابے، نجومی بھی اپنے زائچے کھولے بیٹھے ہیں۔ ستاروں کی چال ڈھال پر بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے کہ پاکستان کے معاشی و سیاسی بحران کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ نوری، روحانی علم والے الگ سے مصلے بچھائے بیٹھے ہیں تو کالے علم والے بھی ایک ٹانگ پر کھڑے چلّے کاٹ رہے ہیں۔
دیکھیں بابوں کی پھونکیں اور کالے علم والوں کے چلّے کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ کہیں (ن) لیگ کی تیاریاں، بلاول کی ہوشیاریاں اور مولانا کی فنکاریاں وزیراعظم کی پریشانیاں، دفتر خارجہ میں حریم شاہ کی کارستانیاں، بڑے ایوانوں کی پُراسرار خاموشیاں کوئی نیا کھرا ہی نہ کھول دیں، بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
بس یہ سمجھیں کہ آپ بھٹو ہیں، نہ مولانا، تقدیر کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور تقدیر کا لکھا آپ کی جیب میں پڑا ہے۔ کسی بھی وقت میز پر آہی جائے گا۔ اللہ شہدائے سانحہ ساہیوال کو آسمانوں میں انصاف سے نوازے۔ تمام بیماروں کو شفا عطا فرمائے اور ہمیں کسی بھی تحریک کے عذاب سے بچائے۔ ریاست مدینہ سے سانحہ ساہیوال کیس اور کالم کا کچھ لینا دینا نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔