Time 28 نومبر ، 2019
پاکستان

آرمی چیف پبلک آفس ہولڈر ہیں انہیں بھی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے چلنا ہے: تجزیہ کار

کراچی: جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان نیلم یوسف کے سوال آرمی چیف مدت ملازمت کیس، کل جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، چیف جسٹس، کیا حساس معاملہ پر حکومتی غفلت کا ازالہ ہوسکتا ہے؟.

جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کا کیس تاریخی ہے اس کا فیصلہ بہت اہم ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ کا اچھا فیصلہ ہے، سنگین غداری کیس میں شاید کبھی فیصلہ نہیں آئے گا۔

شہزاد اقبال نے کہا کہ آرمی چیف کو توسیع ملنے یا نہ ملنے دونوں صورتوں میں اس کیس کی بہت اہمیت ہے، اس کیس میں توسیع ملنے یا نہ ملنے ، اختیار ہے یا نہیں اور کن حالات میں توسیع مل سکتی ہے ان تمام سوالات کے جواب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اس معاملہ میں غفلت پر عدالت کی طرف سے سخت سرزنش ہوئی ہے، ایک موقع پر تو چیف جسٹس کو یہ بھی کہنا پڑا کہ آرمی چیف کی تقرری کو آپ نے شٹل کاک بنایا ہوا ہے اس طرح تو کسی اسسٹنٹ کمشنر کی بھی تقرری نہیں ہوتی ہے، حکومت سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق اب کام کرے گی اور طریقہ کار معاملہ طے ہوجائے گا، بنیادی سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتی ہے یا نہیں کرسکتی، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ وزیراعظم کے پاس آرمی چیف کو توسیع دینے کا اختیار ہے تو پھر اس کیلئے حالات اور سچویشن کا تعین کرنا وفاقی حکومت کا ڈومین بن جائے گا اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔

بابر ستار کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کا کیس تاریخی ہے اس کا فیصلہ بہت اہم ہوگا، ہم نے اپنے ملک میں چھوٹے چھوٹے خدا بنائے ہوئے ہیں جن پر کوئی بات نہیں ہوسکتی، آرمی چیف پبلک آفس ہولڈر ہیں انہیں بھی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے چلنا ہے اور ان کی تقرری و توسیع ہونی ہے۔

مزید خبریں :