01 دسمبر ، 2019
عالمی ادارۂ صحت اور یونائیٹڈ نیشنز جوائنٹ پروگرام آن ایڈز (UNAIDS:United Nations Joint Programme On Aids)کے اشتراک سے ہر سال یکم دسمبر کو ’’ایڈز کے انسداد کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ ہرسطح تک عوام النّاس میں درست معلومات عام کی جاسکیں اوراسی مقصد کے تحت ہر سال ایک تھیم یا سلوگن بھی منتخب کیا جاتا ہے۔
امسال کا تھیم "Communities make the difference" ہے، دراصل عالمی ادارۂ صحت رواں برس اُن کمیونٹیز کی حوصلہ افزائی کررہا ہے، جو ایچ آئی وی کے خاتمے کے لیےکام کررہی ہیں۔
ایڈز ایک جان لیوا مرض ہے،جوہیومن امینوڈیفی شینسی وائرس (HIV:human Immunodeficiency Virus)کے ذریعے لاحق ہوتاہے۔یہ وائرس سب سے پہلے جسم کے دفاعی نظام پر حملہ کرکے اُسے ناکارہ کرتا ہے، نتیجتاً قوّتِ مدافعت ختم ہونے لگتی ہے۔ درحقیقت ہم قوّتِ مدافعت کی بدولت ہی ہر طرح کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا رفتہ رفتہ جسم کے تقریباً تمام اعضاء جراثیم کی زَد میں آجاتے ہیں۔ ایڈز ، ایچ آئی وی وائرس کی مختلف بیماریوں کی ایڈوانس اسٹیج ہے۔کیوں کہ اگر ایچ آئی وی بروقت تشخیص نہ ہو، تو مدافعتی نظام متاثر ہو کر ایڈز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ مرض پہلی بار شمالی افریقا کے علاقے صحارا میں تشخیص ہوا اور آج دُنیا بَھر میں پھیل چُکا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں تقریباً تین کروڑ چالیس لاکھ افراد اس عارضے کا شکار ہیں۔ پاکستان میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعدادوشمار کے مطابق ایک لاکھ پینسٹھ ہزار افراد ایڈز میں مبتلا ہیں، جن میں سے صرف چھتیس ہزار کے لگ بھگ مریض متعلقہ سینٹرز میں رجسٹر ہیں اور ان میں سے تقریباً اکیس ہزار کا علاج کیا جا رہا ہے۔
ایڈزلاحق ہونے کے کئی عوامل ہیں۔مثلاً غیر محفوظ جنسی تعلقات، غیر تشخیص شدہ خون کی منتقلی(Unscreened Blood Transfusion)، ایک سے زائد بار سرنج کا استعمال،دانت نکلوانے یا کسی اور سرجری کے دوران غیر مطہر آلاتِ جرّاحی کا استعمال، جِلدپرٹیٹوز بنوانا یا ناک، کان چھدوانےکے دوران ایسی سوئی یا اوزار کا استعمال، جو جراثیم سے پاک نہ ہو اورمتاثرہ ماں سے نومولود میں منتقل ہوناوغیرہ۔
نیز، ڈائی لیسسزمشینز(جن کی دیکھ بھال مناسب طریقے سے نہ کی جائے)، مریض کے زیرِ استعمال نیل کٹر،ریزر اور حجام کی دکان میں استعمال ہونے والے آلات کے ذریعے بھی (جنہیں اچھی طرح صاف نہ کیا گیا ہو)یہ وائرس متاثرہ فرد سےدوسرے میں باآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ پھر ہیروئین اور منشیات کے عادی ایسے افراد، جو ایک ہی سرنج سے کئی افراد کو انجیکشنز لگاتے ہیں، وہ بھی عموماً ایڈز کا شکار ہوجاتےہیں۔
مرض کی ابتدائی علامات میں بخار، سردی لگنا، زائد پسینہ، بہت زیادہ نیند آنا، دستوں کی مستقل شکایت، مختصر عرصے میں وزن میں کمی،دائمی کھانسی، سانس پھولنا، مستقل تھکاوٹ، نمونیا، آنکھوں میں دھندلاہٹ، جوڑوں، پٹّھوں میں درد، گلے میں سوجن اور نزلہ زکام وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ جِلد پر زخم ہونابھی ایڈز کی علامت ہوسکتی ہے۔
ایڈزکا شکار مریض ابتدا ًبظاہر صحت مند نظر آتا ہے ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامات کی شدّت اور مدّت بڑھتی چلی جاتی ہے۔اگر تمام تر علاج کےبعد بھی کوئی افاقہ نہ ہو،توفوراً ماہرمعالج سے رجوع کیا جائے۔ ایڈز کی تشخیص ایچ آئی وی اے بی ٹیسٹ (HIV Anti Bodies Test) کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک معمولی ٹیسٹ ہے، مگر ہمیشہ کسی مستند لیبارٹری ہی سے کروایا جائے۔ واضح رہے کہ ایک مخصوص طریقے کے مطابق دو یا تین بار ٹیسٹ کروانےکے بعد ہی حتمی تشخیص ہوپاتی ہے ۔
ایڈز کی تشخیص اس لیے بھی ضروری ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر چار میں سے ایک فرد جو ایڈز میں مبتلا ہے، وہ اپنی بیماری سے لاعلم ہے۔ یعنی اس وقت ایسے لگ بھگ نوّے لاکھ چالیس ہزارافرادہی اس موذی مرض کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں ۔تاہم،ایسی کئی احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اختیار کر کے ایڈز کے مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
مثلاً اگر کسی خاندان، محلّے یا گاؤں کے فرد میں ایچ آئی وی/ایڈز تشخیص ہوجائے، تو مریض سے وابستہ تمام افراد لازماً اپنا بھی ٹیسٹ کروائیں۔خون کا عطیہ لینے سے قبل ایچ آئی وی اسکریننگ کروائی جائے،جنسی بے راہ روی سے اجتناب برتا جائے،غیر ضروری ڈرپس اور انجیکشنز لگوانے سے گریز کیا جائے۔ہر بار ضرورت کے وقت نئی سرنج ،شیو بنوانے کے لیےنئے بلیڈ ،کان چھدوانے کے لیے صاف سوئی کا استعمال لازم ہے۔ اگر گھر میں کوئی ایڈز کا مریض ہو، تو اس کے زیرِ استعمال نیل کٹر الگ رکھیں۔
اگر حاملہ ایڈز کا شکارہے، تو نارمل ڈلیوری کی بجائے کسی ماہر اور سینئر ڈاکٹر سے آپریشن کروائیں،جب کہ زچگی کے فوراًبعد بچّے کا ایچ آئی وی ٹیسٹ بھی ازحد ضروری ہے۔ اگر رزلٹ مثبت ہو، تو ایڈز کا مکمل،جب کہ نیگیٹیو ہونے کی صورت میں چھے ہفتے کے دورانیے پر مشتمل کورس لازماً کروایا جائے،اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے اورمتاثرہ ماں نومولود کو دودھ پلانے سے گریز کرے۔
ایڈز میں مبتلا بچّے کو کوئی زخم وغیرہ ہوجائے، تو ماں یا گھر کا کوئی اور فرد اس زخم کوصاف کر سکتا ہے۔تاہم، اس بات کا خیال رکھا جائے کہ زخم گہرا نہ ہو۔ متاثرہ مریض دانت کی کسی تکلیف کی وجہ سے ڈینٹیسٹ سے رجوع کرے، تو معالج کو اپنے مرض سے متعلق ضرور آگاہ کریں،تا کہ معالج بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرسکے۔صحتِ عامہ کے شعبے سے منسلک افراد، حتٰی کہ خاکروب وغیرہ بھی ایچ آئی وی کی اسکریننگ لازماً کروائیں۔
پاکستان میں خاص طور پرمنشیات کے عادی افراد میں ایڈز سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے، لہٰذا ایسے سینٹرز قائم کیے جائیں،جہاں نشئی افراد کا مفت علاج ہوسکے۔ جنسی بے راہ روی کے گھناؤ نے کاروبار کی روک تھام کے لیے قانونی اقدامات کے ساتھ ان پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے۔علاوہ ازیں، سرکاری اور نجی اسپتالوں کا کچرا اچھی طرح ٹھکانے لگایا جائے،بہتر تو یہی ہے کہ جلا دیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ مفروضات بھی عام ہیں کہ ایڈز، متاثرہ شخص سے ہاتھ ملانے، ساتھ بیٹھنے، کھانے پینے،کھیلنے کودنے، زیرِ استعمال کپڑوں، برتنوں ، مچھر کے کاٹنے اور مریض کی تیمارداری کرنے سے پھیلتا ہے، جوقطعاً درست نہیں۔ ایڈز کے مریض شادی تک کرسکتے ہیں،البتہ چند امور کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مریض کی بیماری قابو میں ہو، Viral Load کم اور CD4 کاؤنٹ زیادہ ہو۔
افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایڈز کو محض جنسی بے راہ روی کاعارضہ تصوّر کیا جاتا ہے اور اسی سبب مریضوں کوانتہائی نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،حالاں کہ یہ مرض لاحق ہونے کی اور بھی متعدد وجوہ ہیں۔ تو سب سے پہلے تواپنے رویّوں میں تبدیلی لانے اور متاثرہ افراد سے حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔
پھر یہ بات بھی گِرہ سے باندھ لیں کہ مرض سے تو نفرت کی جاسکتی ہے، مگر مریض سے نفرت کسی صُورت مناسب نہیں۔اگر آپ صاحبِ اسطاعت ہیں، تو ایڈز کے مریضوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی روزگار کا اہتمام کردیں۔ مثلاً کوئی ملازمت ،ریڑھی، رکشہ یا کوئی مشین وغیرہ دلوادیں۔
اس طرح مریض خود کفیل ہوکر کم از کم اپنےعلاج معالجے کے اخراجات تو اُٹھاسکے گا۔ علاوہ ازیں، معالج مریضوں پر خاص توجّہ دینے کےساتھ محبّت اور نرمی کا رویّہ اختیارکریں۔بالخصوص Aids protocol کے ساتھ اس بیماری کا علاج کیا جائےکہ یہ مریض بھی بروقت تشخیص اور علاج کی بدولت بہتر زندگی گزارسکتے ہیں۔
اگر مریض ادویہ وغیرہ میں ناغہ نہ کریں اور معالج سےمستقل رابطے میں رہیں، تو مرض شدّت اختیار کرتا ہے،نہ ہی ایسے مریض دوسروں تک مرض پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ جب کہ علاج نہ کروانے کی صُورت میں مریض جلد تپِ دق کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں مختلف طبّی پیچیدگیاں جنم لےسکتی ہیں، بیکٹیریل انفیکشن یا پھرسرطان لاحق ہوسکتا ہے۔
اس ضمن میں حکومت چھوٹے شہروں، گاؤں اور دیہات وغیرہ میں ایڈز کی تشخیص اور علاج کے لیے مفت سینٹرز قائم کرے ،کیوں کہ جیسے ذیابطیس اور بلند فشارِ خون کے مریض علاج کے ذریعے اپنے مرض پر قابو پاسکتے ہیں، ایسے ہی بروقت تشخیص اور مستقل علاج کے ذریعےایڈز کے ساتھ بھی نسبتاً بہتر زندگی جی جا سکتی ہے۔