02 دسمبر ، 2019
زیادہ پرانی بات نہیں۔ آصف علی زرداری پاکستان کے طاقتور صدر تھے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اُنہیں بار بار للکارا کرتے تھے۔ شہباز شریف کا وہ مائیک توڑ خطاب مجھے آج بھی یاد ہے جس میں اُنہوں نے لاہور کے بھاٹی چوک میں اپنے سامنے مجمع کو گواہ بنا کر اعلان کیا کہ اوئے آصف زرداری ہم تمہیں اسی چوک میں اُلٹا لٹکائیں گے اور تم سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے اور بھاٹی چوک میں ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔
یہ وہی زرداری تھا جس نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا تو نواز شریف بہت حیران ہوئے۔
زرداری کو کہا گیا کہ صدر کے عہدے کو بےاختیار نہ کریں ورنہ آپ کے خلاف سازشوں میں تیزی آ جائے گی لیکن زرداری جواب میں کہتے کہ میں بےنظیر بھٹو بن کر سوچنے لگا ہوں اور میرے خیال میں صدر کے بجائے وزیراعظم کو بااختیار ہونا چاہئے کیونکہ وزیراعظم کو منتخب اسمبلی لے کر آتی ہے۔
اسی زرداری کی لائی گئی اٹھارہویں ترمیم کے باعث تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہوئی اور 2013 میں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اپنے دوست شہباز شریف کی طرح زرداری کو اُلٹا لٹکانے کی خواہشں میں مبتلا تھے لہٰذا اُنہوں نے 2015 میں ایف آئی اے کے ذریعہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کا مقدمہ شروع کرایا۔
اس سے پہلے کہ کوئی آصف علی زرداری کو لٹکاتا پاناما اسکینڈل کے باعث ہر طرف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اب عمران خان صرف نواز شریف نہیں بلکہ آصف علی زرداری کو بھی اُلٹا لٹکانے کے اعلانات کرنے لگے۔
نواز شریف نااہل ہو کر جیل چلے گئے اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد وہ بار بار یہ اعلان کرنے لگے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ میں نواز شریف اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس نکلوائوں گا۔
جب بھی پوچھا جاتا کہ مہنگائی کب کم ہوگی تو وہ مہنگائی کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتے۔ ماضی کی حکومتوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس نکلوانے کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی بہت زور لگایا اور اپنی نگرانی میں ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن سے جعلی اکائونٹس کیس کی مزید تحقیقات کرائیں۔
عمران خان کی حکومت نے نواز شریف کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا لیکن ابھی تک اُن کے خلاف ٹرائل شروع نہیں ہوا۔
نواز شریف بیماری کے باعث جیل سے اسپتال آئے اور اسپتال سے لندن پہنچ گئے۔ آصف زرداری بھی بیمار ہیں لیکن وہ جیل سے صرف اسپتال تک پہنچے ہیں۔ اُن کے خلاف مقدمہ کراچی میں درج ہوا لیکن اُنہیں پنجاب کی ایک جیل میں رکھا گیا۔
آج کل وہ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں نظر بند ہیں جہاں قریبی اہلِ خانہ کو بھی مشکل سے ملاقات کی اجازت ملتی ہے۔ آصف زرداری کے وکلاء نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے ایک درخواست تیار کی لیکن زرداری نے درخواست پر دستخط سے انکار کر دیا۔
وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی معالج تک رسائی چاہتے ہیں لیکن اُنہیں یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔ اہلِ خانہ نے مطالبہ کیا کہ کم از کم اُنہیں کراچی منتقل کر دیں لیکن اُنہیں یہ رعایت بھی نہیں مل رہی۔
عمران خان کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بہت زیادہ بیمار ہیں اور خدانخواستہ اُنہیں اسلام آباد میں کچھ ہو گیا تو بڑا نقصان ہو سکتا ہے لیکن عمران خان اس معاملے پر سنی ان سنی کر دیتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ زرداری کو رعایت دینے سے اُنہیں سیاسی نقصان ہو گا۔
وہ بشیر میمن کی جگہ واجد ضیاء کو لے آئے ہیں تاکہ ایف آئی اے آصف علی زرداری کو جلد از جلد اُلٹا لٹکانے کے انتظامات مکمل کرے۔ عمران خان کی زرداری سے نفرت بہت پرانی ہے۔
نفرت کی یہ کہانی عمران خان کی کتاب ’’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں موجود ہے جو 2011 میں شائع ہوئی تھی اس کتاب میں عمران خان نے لکھا ہے کہ وہ بےنظیر بھٹو کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے جانتے تھے۔
انہوں نے بےنظیر بھٹو کا تعارف اپنے ایک کزن قمر خان سے کرایا لیکن جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آ گیا۔ بےنظیر بھٹو کی شادی قمر خان کے بجائے آصف علی زرداری سے ہو گئی۔
1989ء میں عمران خان شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر میں مدد کے لئے اپنے دوست طارق شفیع کے ہمراہ بلاول ہائوس کراچی میں آصف علی زرداری کو ملے۔ عمران خان لکھتے ہیں کہ زرداری نے میری بڑی آئو بھگت کی لیکن وہ زیادہ وقت طارق شفیع سے باتیں کرتے رہے اور اُنہیں کہا کہ آپ سندھ میں ٹیکسٹائل مل لگائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے اور اگر آپ مجھے 20 فیصد کا پارٹنر بنا لیں تو میں آپ کو بینکوں سے قرضہ بھی دلوا دوں گا۔
عمران خان کے بقول زرداری نے کینسر ہاسپٹل کے لئے کوئی مدد نہ کی۔ پانچ سال کے بعد جب اسپتال مکمل ہو گیا تو مجھے نوید ملک کے ذریعہ پیغام ملا کہ بےنظیر بھٹو اور زرداری اسپتال کا افتتاح کرنا چاہتے ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا جس پر شاہی جوڑا مجھ سے ناراض ہو گیا حالانکہ وزیراعظم افتتاح کرتی تو اسپتال کو بہت فائدہ ہوتا۔
عمران خان نے یہ کتاب اپنے آٹو گراف کے ساتھ مجھے دی تھی۔ اس کتاب میں زرداری اور نواز شریف کے علاوہ اُنہوں نے پرویز مشرف پر بہت شدید تنقید کی تھی۔ پرویز مشرف کے بارے میں اُن کا موقف خاصا بدل گیا ہے کیونکہ یہ اُن کی سیاسی ضرورت ہے۔
کچھ غیر ملکی طاقتیں بدستور مشرف کا تحفظ کر رہی ہیں۔ نجانے مشرف نے غیر ملکی طاقتوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ وہ آج بھی اُس کے پیچھے کھڑی ہیں اور آصف علی زرداری نے ایسا کیا ہے کہ کچھ لوگ بیماری کی حالت میں بھی اُسے اُلٹا لٹکانے پر تلے بیٹھے ہیں؟
زرداری کو غلام اسحاق خان نے دو سال کے لئے جیل میں ڈالا، نواز شریف اور مشرف نے نو سال کے لئے جیل میں ڈالا اور اب وہ عمران خان کے قیدی ہیں۔
بارہ سال جیل میں گزارنے والے آصف علی زرداری سے اب تک کتنی رقم برآمد ہوئی ہے؟ اگر ایک روپیہ بھی برآمد ہوا ہے تو مجھے ثبوت کے ساتھ دکھا دیا جائے۔ آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات ضرور کریں، مقدمے بھی بنائیں لیکن اُنہیں اُن کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی سہولت تو دے دیں۔
کیا اُن کا قصور صرف یہ ہے کہ اُنہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کو دے دیئے اور یہی اختیارات آج کل عمران خان کی اصل طاقت ہیں۔
آصف علی زرداری کو بُرا بھلا کہنا اور گالی دینا بہت آسان ہے اور گالی دینے والے کو بہت شاباش بھی ملتی ہے۔ اُسے اُلٹا لٹکا کر کوئی رقم نکلتی ہے تو ضرور نکلوا لیں لیکن ذرا یہ بھی سوچ لیں کہ ایک دفعہ پھر آپ کو کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟
کم از کم تین چھوٹے صوبوں کے عوام کی اکثریت کی نظروں میں زرداری نہیں آپ اُلٹا لٹک جائیں گے اور ’’گو زرداری گو‘‘ ’’گو نواز گو‘‘ سے شروع ہونے والا معاملہ ’’گو عمران گو‘‘ پر ختم ہوگا۔