پاکستان
Time 07 دسمبر ، 2019

عثمان بزدار کو ہی وزیراعلیٰ کیوں رہنا چاہیے؟

عثمان بزدار — فائل فوٹو

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کے ساتھ میری تعیناتی سے پہلے مجھے میاں شہباز شریف کے دور میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اگست 2018 میں جب عثمان بزدار نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو میرے لیے پنجاب کے ایک ایسے وزیراعلیٰ کی جگہ جو 10 برس سے صوبہ پر حکومت کر رہا ہو، ایک اجنبی اور ناتجربہ کار شخصیت کا اس کے متبادل کے طور پر قبول کرنا ایک ناقابل یقین تصور تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں شہباز شریف کا شیدائی تھا بلکہ گزرے دو انتخابات کے بعد صوبائی ایوان میں آنے والی شخصیات میں سے کسی دوسرے کو اس عہدے کے لیے اہل نہیں سمجھتا تھا۔

وزیراعلیٰ بزدار کے لیے ناصرف میڈیا بلکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ان کی بطور صوبائی وزیراعلیٰ تعیناتی کے بارے میں مجموعی تاثرات اور ماحول سازگار نہ تھے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کی حزب اختلاف سے زیادہ خود بزدار صاحب کی جماعت کے اہم رہنما ان کے خلاف بیانات دے رہے تھے۔ اور ایک ایسے وقت میں کہ جب پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی عمران خان کے اس فیصلے کے سے ناخوش تھے اور خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں چلانے میں مصروف تھے، عثمان بزدار نے وہ کام کرنا شروع کر دیا جس کے لیے انہیں خان صاحب نے ٹاسک دیا اور منتخب کیا تھا۔

میں بلا جھجک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے پورے سروس کیریئر کے دوران عثمان بزدار جیسا بے لوث اور شریف النفس صوبائی سربراہ نہیں دیکھا ۔ میڈیا انٹرویو ہوں یا صحافیوں کے سوالات، سیاسی اجتماعات ہوں یا پارٹی میٹنگز انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات اور رہنماووں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر ان کا رد عمل ہمیشہ سادہ مگر پراعتماد ہوتا۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عثمان بزدار اقتدار کے بھوکے نہیں اور نا ہی ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ نا ہی وہ لالچی اور خود غرض انسان ہیں اور ناہی ان میں صحیح اورغلط طریقوں سے "مال بنانے" کی خواہش۔ لہذا وہ صوبے کی خدمت کرنے کے لیے ایک بہترین پوزیشن میں ہیں۔

صوبے کے لیے ان کی بے لوث خدمت اور آنے والے برسوں کیلئے اٹھائے جانے والے صوبائی ترقی کے اقدامات کا میں خود شاہد ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کو صوبائی سربراہ کے عہدے سے ہٹانا کیوں درست قدم نہیں ہوگا ؟ تو اس سوال کے جواب میں ناقابل تردید دلائل دیے جا سکتے ہیں۔

 وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے آزادی سے کام کرنے کے لیے مشکل ترین حالات کے باوجود عثمان بزدار اپنی ترجیحات پر قائم رہے ۔

پہلے نمبر پر یہ کہ اپنے صرف ایک سالہ دور میں صوبائی حکومت نے ان کی سرباراہی میں ہسپتالوں میں 9000 بستر وں کے اضافے کے علاوہ 72 لاکھ خاندانوں میں مفت طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے صحت کارڈ تقسیم کیے۔ ان کی حکومت نے 12 ماہ کے قلیل عرصے میں صوبے بھر کے 40 ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کی تعمیر نو پر قابل ستائش انداز میں کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ جدید طبی سہولیات سے آراستہ بڑے منصوبے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان منصوبوں میں صوبے کے پسماندہ اضلاع میں 9 بڑے اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں جن میں لیہ ، راجن پور، بہاول پور، میانوالی اور اٹک میں 200 بستروں پر مشتمل صرف ماں اور بچوں کے مخصوص اسپتال بھی شامل ہیں ۔

عثمان بزدار کو پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے تعلیمی مسائل کا بخوبی اندازہ ہے لہذا انہوں نے اس بات کو یقینی بنانےکے لیے صوبے کے ہر ضلعے میں کم از کم ایک یونیورسٹی بنانے کے لیے 8 نئی اعلی تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا اعلان کیا۔

 یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کا نام ، صوبے کے اہم ترین اور باصلاحیت وزیراعلیٰ کے طور پر لیا جانے والا ایک بڑا نام بننے کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔

 ان میں سے دو یونیورسٹیوں میں تعلیمی عمل شروع ہو چکا ہے جبکہ باقی یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ کی تکمیل پر کام تیزی سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی صوبے بھر میں 43 نئے کالج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقے کے لیے تعلیمی سہولیات کی با آسانی فراہمی کے لیے دوپہر کے اسکول، ماڈل اسکول اور موجودہ اسکول کی عمارتوں میں اضافی کلاس روم بھی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں ۔

پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار متعدد صنعتی علاقوں کو خصوسی اقتصافی رون کا درجہ دیا گیا ہے اور ان اسپیشل اکنامک زونز کے بننے سے ایک اندازے کے مطابق 250،000 سے زائد لوگوں کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔ پچھلی حکومتوں نے 3 جبکہ عثمان بزدار کے دور میں 10 اسپیشل اکنامک زونز پر کام جاری ہے، ان میں نجی زونز بھی شامل ہیں۔ جو نہ صرف اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے بلکہ پورے صوبے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ وزیراعلیٰ کے 9 ارب روپے کے آسان قرضوں کی اسکیم سے نئے کاروبار شروع کرنے والے نوجوان اور باہنر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ موجودہ چھوٹے کاروباری افراد کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے کا موقع ملے گا جس سے 5 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہونگی۔

یہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور حکومت میں نئے اور موجودہ بڑے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی کی چند مثالیں ہیں جبکہ ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی میدان کے وسیم اکرم پلس اب اپنی پوری فارم میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کی موجودہ کارکردگی اور منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بالکل اسی طرح نہایت ذمہ داری سے کام کررہے ہیں جیسے ان کی تعیناتی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے امید لگائی ہوگی ۔

میں عثمان بزدار کو قریب سے دیکھنے کے بعد بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ جو عثمان بزدار کو منتخب کرنا ایک ناقص فیصلہ سمجھتے ہیں ، انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف بہترین انتخاب تھے بلکہ اب ان کو تبدیل کرنا پی ٹی آئی کا بدترین فیصلہ ہوگا۔ بزدار صاحب نے ایک سال میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بھرپور کردار اداکیاہے ۔ ایک ایسا کردار جو اس صوبے کی ترقی کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی پارٹی اور حزب اختلاف کی شدید مخالفت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ بیوروکریسی اور سیاسی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے آزادی سے کام کرنے کے لیے مشکل ترین حالات کے باوجود عثمان بزدار اپنی ترجیحات پر ناصرف قائم رہے بلکہ اس پر عمل پیرا رہنے میں بھی کامیاب رہے ہیں ۔ آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ایک ایسے وقت جب صوبہ پنجاب کے انتظامی اور ترقیاتی امور کامیابی سے آگے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ، صوبے کی حکومت میں کسی بھی غیر ضروری اور بے وقت تبدیلی سے گورننس ماڈل پر انتہائی منفی اثر مرتب ہوں گے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ۔۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار اب ایک برینڈ بن رہے ہیں ۔

میرا وزیر اعظم عمران خان کو پرخلوص مشورہ ہے کہ خان صاحب، اپنے وسیم اکرم پلس کو کام کرنے دیں۔

نوٹ: لکھاری پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں  اور ان کی خواہش پر نام شائع نہیں کیا جا رہا۔

مزید خبریں :