23 دسمبر ، 2019
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کا دل بہت بڑا ہے۔ پرویز مشرف نے اِن دونوں کے ساتھ جو بےوفائیاں کیں اُن کے کچھ قصے چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے!‘‘ میں بیان کئے ہیں۔
آئین سے غداری کے مقدمے میں سزائے موت پانے کے بعد پرویز مشرف پر وہ لوگ بھی تنقید کر رہے ہیں جو موصوف کے دورِ حکومت میں کبھی نہ بولے تھے۔ چوہدری برادران مشرف کو ملنے والی سزا پر شہباز شریف کی طرح خاموش رہتے تو کوئی اُن کا کیا بگاڑ لیتا لیکن اِس مشکل وقت میں وہ مشرف کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ یارانِ نکتہ داں یہ کہیں کہ چوہدری برادران کو مشرف سے ہمدردی نہیں ہے بلکہ وہ تو کچھ طاقتور لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ جب یہ طاقتور لوگ مشرف کے ساتھ نہیں تھے تو چوہدری برادران نے اُس وقت بھی مشرف کو یہ پیشکش کی تھی۔
وہ اُن کے لئے بہت اچھے وکلا کا بندوبست کرنے کے لئے تیار ہیں اور اُن کی فیس بھی خود ادا کریں گے لیکن اُس وقت مشرف بہت پُر اعتماد تھے اور اُنہوں نے چوہدری برادران کی اِس پیشکش پر شکریہ کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ جی ہاں! آپ کو یاد ہوگا کہ 2013کے الیکشن سے کچھ دن قبل مشرف صاحب اچانک پاکستان واپس آ دھمکے تو کراچی ایئر پورٹ پر اِس ’’مقبول‘‘ ڈکٹیٹر کے استقبال کے لئے چند سو افراد بھی اکٹھے نہ ہوئے۔
متحدہ قومی موومنٹ آج کل مشرف صاحب کے حق میں سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔ 2013میں متحدہ قومی موومنٹ نے مشرف کی حمایت کیوں نہ کی؟ وجہ یہ تھی کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو مشرف سے علیحدہ کر رکھا تھا۔ مشرف نے پاکستان واپس آ کر اپنے لئے بھی مسائل پیدا کئے اور فوجی قیادت کو بھی ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا۔
2013کے الیکشن سے قبل سینیٹ میں ایک متفقہ قرارداد منظور ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ اِس قرارداد کے خلاف نہ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر بولے، نہ ہی ایم کیو ایم کے سینیٹر۔ جب الیکشن کے بعد نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو عمران خان صاحب نے ہر دوسرے تیسرے دن اُن پر طعنہ زنی شروع کر دی کہ اوئے نواز شریف تم مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چلاتے؟
پھر سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر ہو گئی کہ مشرف کے خلاف سپریم کورٹ کے 2009کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر سماعت کے بعد حکومت کو حکم دیا کہ مشرف پر مقدمہ چلایا جائے۔ جب حکومت نے مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تو نومبر 2013میں رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے سب سے پہلے مشرف کے خلاف مقدمے کا خیر مقدم کیا اور اُن کا ایک ٹویٹ لوگوں کو ابھی تک یاد ہے۔
2014میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ اُس وقت کے سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک نے ایک بیان میں کہا کہ فوج کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ جنرل راحیل شریف فوج کے سربراہ بن چکے تھے اور اُنہوں نے مشرف کے ساتھ پرانی نیاز مندی کے باعث اُنہیں بچانے کی کوشش شروع کر دی جس کا اعتراف مشرف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا۔
اُنہی دنوں چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ اکیلے پرویز مشرف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بلکہ اُن کے ساتھ کچھ شریک ملزمان پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔ اِس نکتے کا جواب سپریم کورٹ کے 13جج 31؍جولائی 2009کو اپنے فیصلے میں دے چکے ہیں جس میں اُنہوں نے کہا 2007میں پرویز مشرف وردی میں دوبارہ صدر بننا چاہتے تھے۔
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے اُنہیں بطور صدارتی امیدوار نااہل قرار دلوانے کے لئے درخواست دائر کر دی۔ جب مشرف کو یہ یقین آ گیا کہ فیصلہ اُن کے حق میں نہیں آئے گا تو اُنہوں نے آئین معطل کر کے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے 60سے زائد ججوں کو نظر بند کر دیا۔
17؍دسمبر 2019کو خصوصی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ 31؍جولائی 2009کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا تسلسل ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مشرف نے صرف اپنا عہدہ بچانے کے لئے آئین معطل کیا۔ مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والی تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طرف سے لکھے جانے والے پیرا 66کی بڑی مذمت ہو رہی ہے۔
اس پیرا میں اُنہوں نے لکھا کہ اگر مشرف کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو اُن کی موت کے بعد اُنہیں ڈی چوک اسلام آباد میں لایا جائے اور یہاں اُن کی لاش تین دن تک لٹکائی جائے۔ یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں 12مئی 2007کو کراچی میں قتلِ عام کے چند گھنٹوں کے بعد مشرف نے اپنے مُکے لہرائے تھے۔ آئینی ماہرین کی اکثریت نے پیرا 66کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو ڈی چوک میں مشرف کو لٹکانے کا خیال کہاں سے آیا؟ کیا واقعی اُنہوں نے یہ پیرا لیفٹیننٹ جنرل اولیور کرامویل کے انجام کو سامنے رکھ کر لکھا یا اُنہوں نے موجودہ حکومت کے کسی وزیر کا بیان سُن لیا جنہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر ہزاروں افراد کو لٹکانے اور اُن کی لاشیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا؟ ویسے اس گناہ گار نے تو کچھ اور لوگوں کی زبانوں سے اِس بھی بڑھ کر فقرے سنے ہیں۔
بہرحال چوکوں چوراہوں پر لاشیں لٹکانے کی خواہش ہمارے معاشرے کے خاص و عام افراد میں کافی عرصہ سے موجود ہے لیکن بہرحال یہ خواہش غیر آئینی ہے۔ پیرا 66میں ظاہر کی گئی اس خواہش کو مشرف کے حامیوں کی طرف سے غیر آئینی قرار دینا خوش آئند ہے۔
پیرا 66کی وجہ سے مشرف کے حامیوں کا اہلِ وطن کو آئین، اخلاق، تہذیب اور انسانی حقوق یاد دلانا بہت اچھا لگا۔ مشرف کے حامیوں کے ردِعمل سے یہ واضح ہو گیا کہ اُنہیں آئین اُس وقت یاد آتا ہے جب اُن کے اپنے مفاد پر زد پڑتی ہے۔ میں مشرف کے حامیوں کو دعوت دوں گا کہ چوہدری شجاعت حسین کی کتاب ’’سچ تو یہ ہے!‘‘ پڑھ لیں۔
چوہدری صاحب نے نواز شریف کو چھوڑ کر مشرف کا ساتھ دیا اور اُنہیں وردی میں صدر بنوایا۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ اکبر بگٹی مذاکرات کے لئے اسلام آباد آنے پر راضی تھے لیکن اُنہیں پہاڑوں میں مار دیا گیا۔
چوہدری صاحب نے لال مسجد اسلام آباد میں عبدالرشید غازی کے ساتھ بھی مذاکرات کے ذریعہ معاملات طے کر لئےلیکن اُنہیں بھی مار دیا گیا۔ کتاب میں یہ بھی لکھا کہ یہ مذاکرات کامیاب بنانے کے لئے حامد میر نے چوہدری صاحب کی کیسے مدد کی۔ اور آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ 2008میں مشرف نے اُنہیں الیکشن ہرانے کیلئے دھاندلی کی۔
بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کیلئے مشرف نے سازش کی تو فیصل صالح حیات نے اس سازش کے خلاف مزاحمت کی۔ مشرف دونوں بھائیوں کو ہٹا کر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے تھے لیکن آصف زرداری نے ان دونوں کو پیغام بھیجا کہ میں آپ کو نہیں مشرف کو ہٹانا چاہتا ہوں۔
مشرف دونوں بھائیوں کو پارٹی سے نکالتے نکالتے ایوانِ صدر سے نکل گئے۔ پھر وہ پاکستان سے بھی نکل گئے۔ آج چوہدری برادران ایک دفعہ پھر مشرف کیساتھ کھڑے ہیں اور پیرا 66کی مذمت کر رہے ہیں۔ دونوں بھائیوں کا دل بہت بڑا ہے لیکن عام پاکستانی کیا کریں؟
ہم پیرا 66کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہم آئین شکن مشرف کو اپنا ہیرو کیسے تسلیم کر لیں؟ ہم نے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے قبول کئے تو پھر مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو کیسے رد کر دیں؟
آج سب کو اپنا اپنا دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ دل پاکستان کے آئین سے تو بڑا نہیں ہو سکتا۔ کیا خیال ہے؟