24 دسمبر ، 2019
ملک کا حکمران عوام کا ترجمان ہوتا ہے اور اپنی عوام کی نبض پر اُس کا ہاتھ ہوتا ہے اور ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس سے عوام کو اچھی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم ہوں۔ زمانہ قدیم سے لوگ اچھی زندگی گزارنے کیلئے اور اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں بعض اوقات لوگوں کی جدوجہد کامیاب ہوئی، اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زندگی کا آفتاب غروب ہوتا رہا لیکن بنیادی حقوق اور زندگی کی عام ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد کی جنگ کئی نسلوں کو لڑنا پڑی۔
1947ء کی 14 اگست کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں مسلمانانِ ہند کی اکثریت کیلئے ایک آزاد مملکت وجود میں آئی جس کا نام پاکستان ہے۔ دو قومی نظریہ کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت ہندوؤں سے علیحدگی چاہتی تھی اور مسلمانوں کی اکثریت ایک اسلامی فلاحی مملکت چاہتی تھی جہاں پر اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے مواقع دستیاب ہوں۔
جب پاکستان کی آزاد مملکت معرض وجود میں آئی تو حکومت کا کاروبار چلانے کیلئے بانی پاکستان کو بہت ہی سنگین صورت حال کا سامنا تھا اور زندگی نے اُن کو زیادہ مہلت نہ دی اور یوں نئے ملک کو اپنی عظیم قیادت کی عدم موجودگی میں اپنی منزل کے تعین کے حوالے سے ایک بحران کا شکار ہونا پڑا۔ابتدائی دنوں میں آئین کے حوالے سے اور اقتدار کی رسہ کشی نے فلاحی
ریاست کے خواب کو بری طرح سے جھنجوڑ کے رکھ دیا اور یوں مملکت اپنے اس مقصد سے دور ہوتی گئی جو اس کے قیام کی اصل وجہ تھا۔ یعنی کے ایک اسلامی فلاحی ریاست پاکستان۔1980ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے نئے سیاسی منظر نامہ میں ایک نیا نام اقتدار کے ایوانوں میں گونجنا شروع ہوا اور اقتدار کی دیوی ایسی مہربان ہوئی کہ ایک غیر سیاسی خاندان کے سپوت میاں نوازشریف مجلس شوریٰ کے ممبر رکن بننے کے بعد پنجاب کے وزیرخزانہ بنا دیئے گئے۔ اور بات یہیں پر نہ رکی 1985ء کے الیکشن جو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے، اُن میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے مضبوط امیدواروں کی موجودگی کے باوجود میاں نوازشریف کو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب کر لیا گیا اوریوں پنجاب کا اقتدار پنجاب کے روایتی سیاستدان گھرانوں سے لاہور کے ایک نسبتاً غیر سیاسی گھرانے میں منتقل ہو گیا۔
جنرل ضیا الحق اصل میں اقتدار کے مالک تھے اور نوازشریف نے اپنی قربت اُن سے بڑھائی اور شدید سیاسی مخالفت کے باوجود آگے بڑھتے گئے سندھ میں چونکہ ضیا صاحب کو کافی سیاسی مشکلات کا سامنا تھا لہٰذا وہاں سے جونیجو صاحب کو وزیراعظم منتخب کروانا ضیا کی ایک اہم ضرورت تھی اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی سرپرستی پیپلزپارٹی کو محدود کرنے کی ایک کوشش تھی۔ جونیجو صاحب نے آتے ہی مارشل لا اٹھانے کی باتیں شروع کر دیں اور بے نظیر بھٹو جو کہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اُن کیلئے جیسے ہی حالات سازگار ہوئے۔
وزیراعظم جونیجو کی ضیا الحق صاحب سے نہ بنی اور 29 مئی 1987ء کو اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور جونیجو صاحب کو رخصت کر دیا گیا۔17 اگست 1987ء میں جنرل ضیاالحق کا طیارہ کریش کر گیا اور یوں چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کو صدر پاکستان بنا دیا گیا اور صدر پاکستان غلام اسحق خان نے آتے ہی نئے الیکشنز کا اعلان کر دیا۔ اور اس مرتبہ الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوئے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں اور میاں نوازشریف نے نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پرحلف اٹھایا۔
6 اگست 1990ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا اور غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا اور اُنہوں نے الیکشن کروائے اور اسلامی جمہوری اتحاد نے الیکشن لڑا اور پہلی بار نوازشریف وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے اور اس دو تہائی اکثریت کی حکومت کے دور میں 1992ء میں سندھ اور کراچی میں آپریشن شروع ہوا۔ پھر الیکشن ہوئے بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔وہ حکومت بھی ختم ہوگئی اور پھر مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی اس کے بعد مشرف آمریت پھر پی پی پی و مسلم لیگ ن کی باریاں غرض گزشتہ 71 سالوں میں اس ملک نے کئی جمہوری اور بادشاہی تماشے دیکھے لیکن نہیں دیکھی تو وہ خوشحالی جس کا وعد ہ تحریک پاکستان میں قائداعظم اور دوسرے اکابرین تحریک نے کیا تھا۔
آج پھر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا ہے اور عوام سے وعدہ کیا کہ حکومت پاکستان کی منزل ایک بار پھر ریاست مدینہ ہو گی۔ دوسری طرف عوام بُری طرح سے تھک چکے ہیں اس سفر میں پاکستان کے شب و روز گواہی دیتے ہیں۔لو رات کی چادر کے کناروں کو لگی آگ آثار بتاتے ہیں کہ سحر ہو کر رہے گی۔