Time 06 جنوری ، 2020
پاکستان

اے طائر لاہوتی! تم کدھر چلے گئے؟

فائل فوٹو: میاں نوازشریف

3جنوری کو قومی اسمبلی کا بہت ہی مختصر اجلاس منعقد ہوا لیکن یہ مختصر اجلاس اپنے پیچھے ایک لمبی کہانی چھوڑ گیا، اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر نے وزیر دفاع پرویز خٹک کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کا قانون پیش کرنے کی دعوت دی لیکن مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو گئے۔

اُنہوں نے اسپیکر کو یاد دلایا کہ قومی اسمبلی کے گرفتار اراکین شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور خورشید شاہ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے، وہ احسن اقبال کا نام بھول گئے، میری نظروں نے چند دن قبل رہا ہونے والے رانا ثناء اللہ کو تلاش کیا لیکن وہ ایوان میں موجود نہ تھے۔

اسپیکر نے خواجہ محمد آصف کی بات سُن کر پرویز خٹک کو ترمیمی بل پیش کرنے کی دعوت دی، اُنہوں نے آرمی، ائیر فورس اور نیوی ایکٹ میں ترمیم کے بل پیش کئے اور اجلاس اگلے دن کے لئے ملتوی ہو گیا۔

وہ وزراء جنہوں نے ایک رات قبل مختلف ٹی وی چینلز پر دعوے کئے تھے کہ جمعہ کو یہ ترمیمی بل منظور ہو جائینگے، ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، یہ بل قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیج دیا گیا تھا اور بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بل کو قائمہ کمیٹی کو بھجوانا ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیدیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں صحافی مسلم لیگ (ن) والوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور وہ صحافیوں سے معذرت خواہانہ انداز میں کہہ رہے تھے ہمیں کچھ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، آپ خواجہ آصف کے پاس جائیں وہ سب جانتے ہیں۔

اس دوران نماز جمعہ کیلئے اذان ہو گئی، پارلیمنٹ ہاؤس میں نماز جمعہ کیلئے صف بندی شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی نے مجھے اپنے پہلو میں جگہ دیتے ہوئے کان میں ایک ایسی بات کہی جو ناقابل اشاعت ہے، مجھے نماز کے آغاز سے قبل یہ بات بڑی عجیب سی لگی، شاید وہ بارگاہِ الٰہی میں اپنا سر جھکانے سے پہلے اپنا دل کھول کر دکھا رہا تھا۔

اُس کے الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ جب کسی سے اُس کی مرضی کے خلاف زیادتی کی جا رہی ہو اور وہ کچھ نہ کر سکتا ہو تو پھر اُسے اپنا آپ زیادتی کرنے والے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے، نماز ختم ہوئی، دعا کے بعد میں جوتے پہن رہا تھا تو میں نے مذکورہ ایم این اے سے کہا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی، موصوف نے اپنی بات کو انگریزی میں دہرایا تو نماز سے فارغ ہونے والے تحریک انصاف کے ایک اور ایم این اے نے مجھے کہا ’’یہ بالکل ٹھیک کہتا ہے‘‘۔

کچھ ہی دیر میں نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر حاصل بزنجو اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے میڈیا کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی حمایت نہیں کریں گے۔

ایسا ہی اعلان پی ٹی ایم کے علی وزیر نے کیا اور سہ پہر تک جے یو آئی (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا موقف بھی سامنے آ گیا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر اپوزیشن تقسیم ہو چکی تھی، سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کے حامی اپنی جماعت پر خوب برس رہے تھے جبکہ سیاستدانوں کو گالیاں دے کر رزق کمانے والے ’’محبِ وطن‘‘ عناصر مسلم لیگ (ن) پر بوٹ پالش کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔

مخصوص ٹی وی چینلز پر ایک مخصوصی بیانیہ پیش کرنے والے ان ’’محبِ وطن‘‘ عناصر کے مسلم لیگ (ن) پر تابڑ توڑ حملوں سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ڈبل گیم ہو رہی ہے، مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر نے مجھے پوچھا کہ دو تین دن سے سارے جمہوریت پسند ہمیں گالیاں دے رہے ہیں لیکن آپ نے ہلکی پھلکی موسیقی پر گزارا کیا ہے۔

میں نے اس سینیٹر سے کہا کہ مجھے کبھی بھی یہ غلط فہمی نہ تھی کہ نواز شریف ایک نظریاتی لیڈر ہے، میرا خیال تھا کہ نواز شریف اپنی ضد اور انا پسندی کی وجہ سے اُن لوگوں کیساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کرینگے جنہوں نے اُنہیں جیل پہنچایا لیکن پھر نواز شریف کو اُن کی والدہ کے ذریعے مجبور کرکے بیرونِ ملک بھجوا دیا گیا۔

اس قسم کے گھریلو دباؤ کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو کو بھی تھا، اُنہیں ترکی نے پناہ دینے کی پیشکش کی اور بیگم نصرت بھٹو سے کہا گیا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کو رحم کی اپیل کریں لیکن بھٹو صاحب نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔

جو لوگ نواز شریف میں ایک نیا بھٹو تلاش کر رہے تھے وہ مایوس ہیں اور جو مریم نواز کو بینظیر بھٹو بنانا چاہتے تھے، وہ بھی تنقید کا نشانہ ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن آپ کو یہ کریڈٹ تو نواز شریف کو دینا پڑے گا کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا ٹرائل اُنہی کے دورِ حکومت میں شروع ہوا۔

ایک رائے یہ ہے کہ مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلانا نواز شریف کا ذاتی انتقام نہیں بلکہ مجبوری تھی کیونکہ اپریل 2013ء میں توفیق آصف ایڈووکیٹ اور مولوی اقبال حیدر نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں کہ مشرف کے خلاف 31جولائی 2009ء کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے۔

مشرف 2013ء کے انتخابات سے قبل پاکستان واپس نہ آتے تو شاید یہ درخواستیں دائر نہ ہوتیں، ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ مشرف پر مقدمہ شروع کیا جائے اور نواز شریف نے جون 2013ء میں قومی اسمبلی میں مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا۔

اگر وہ یہ نہ کرتے تو اُن پر بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح توہین عدالت کا الزام لگتا، اس مقدمے کے باعث نواز شریف حکومت کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خاں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے دیں تو حکومت کیلئے تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ نواز شریف نے مارچ 2016ء میں مشرف کو باہر جانے کی خاموش اجازت دیدی لیکن مشکلات ختم نہ ہوئیں۔

پہلے پاناما اسکینڈل اور پھر ڈان لیکس کے ذریعے اُن کیلئے نئی مشکلات کھڑی کر دی گئیں۔ اُنہوں نے غلطی یہ کی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی اور لوہے کا چنا بننے کی کوشش کی۔ عدلیہ نے لوہے کے اس چنے کو وزیراعظم ہاؤس سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔

پھر نواز شریف لندن چلے گئے۔ جولائی 2018ء کے انتخابات سے چند دن قبل واپس آئے اور گرفتار ہو گئے۔ واپس نہ آتے تو شاید آج شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہوتے۔ بہرحال شہباز شریف نے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اُنہیں جیل سے نکال کر دوبارہ لندن لے گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ کی بڑی اکثریت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت کی ہے، ان مخالفین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو ایک قانون بنا دینے سے سازشوں کے دروازے کھل جائیں گے اور جب بھی کسی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے تین سال پورے ہونے کو آئیں گے تو توسیع کے لئے جوڑ توڑ شروع ہو جائے گی، اس لئے بہتر ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کو سنیارٹی سے مشروط کر دیا جائے وہ (ن) لیگی جو اس ترمیمی بل کے حامی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس بل کی حمایت کے نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے، ہمیں ان نتائج سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ہمارے لئے تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں فرق ختم ہو چکا ہے، ان سب نے اپنے آپ کو کسی کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ ہمیں تو وہ شعر بار بار یاد آتا ہے جو کسی زمانے میں نواز شریف اپنی تقریروں میں استعمال کیا کرتے تھے۔

اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مزید خبریں :