20 جنوری ، 2020
گورننس اور معیشت کا بُرا حال ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اب تو آٹا بھی ستر روپے کلو تک پہنچ چکا ہے لیکن حکومتی ذمہ دار کیا کچھ کر رہے ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیں! آج (بروز اتوار) جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر ’’احساس لنگر خانہ افتتاح، کون کسے ماموں بنا رہا ہے؟‘‘ کے مطابق اسلام آباد کے کمپلیکس اسپتال (PIMS) میں گزشتہ سات ماہ کے دوران ایک ہی لنگر خانے کا افتتاح دو بار کیا گیا اور دونوں مرتبہ افتتاح کرنے والی شخصیت وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا تھے۔
پہلی بار مئی 2019ء میں حکومت نے ایک شیلٹر ہوم کا افتتاح کیا تھا جس کی فنڈنگ افراز عباسی نامی ایک مقامی شخص نے کی تھی۔
اس شیلٹر ہوم میں مئی 2019ء سے اب تک ضرورت مندوں کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا تھا اور اوسطاً 200سے 300مریضوں یا ان کے تیمارداروں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جاتا تھا۔
افراز عباسی کے مطابق یہ سلسلہ 17جنوری تک کامیابی سے چل رہا تھا کہ اُنہوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ اس شیلٹر ہوم کا بورڈ ہٹا کر ’’سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی تختی لگا کر اُسے لنگر خانہ بنا دیا گیا ہے اور اس بار بھی افتتاح کرنے والے ڈاکٹر ظفر مرزا ہی تھے جنہوں نے پہلے افراز عباسی اور اُس وقت کے کمپلیکس اسپتال کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر راجہ امجد کے ساتھ شیلٹر ہوم کا افتتاح کیا تھا۔
اب کی بار ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے ساتھ مل کر لنگر خانہ کا دوبارہ افتتاح کیا گیا جس میں افراز عباسی شامل نہ تھے۔ افراز عباسی کا اعتراض تھا کہ حکومت بے شک جو تختی مرضی لگا لے اور افتتاح بھی دو بار کر لے لیکن وہ لنگر خانہ جس کے لیے شیلٹر ہوم اُنہوں نے اپنا پیسہ خرچ کر کے تعمیر کیا اور گزشتہ سات ماہ سے ضرورت مندوں کو دو وقت کھانا بھی فراہم کر رہے تھے اب وہاں اُن کی جگہ کوئی دوسرا ڈونر کھانا کیوں فراہم کرے گا۔
اگر کسی اور کو یہی ثواب کمانا تھا تو لنگر خانہ ایک اور کھول دیتے، اُن سے یہ نیکی کا عمل اس انداز میں کیوں چھینا گیا۔
آج وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے بھی یہ خبر شائع ہوئی کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے متعلق تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ بزدار ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہیں گے کیونکہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔
بزدار کیا کام اچھا کر رہے ہیں، یہ تو تحریک انصاف والوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہا لیکن خان صاحب کو بزدار میں جو نظر آ رہا ہے وہ ساری دنیا دیکھنے سے قاصر ہے۔ سب کہتے ہیں کہ عثمان بزدار بہت سیدھے سادے آدمی ہیں اور حکمرانی کے فن سے ناواقف ہیں۔
ٹھیک ہے کہ پنجاب کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے لیکن عثمان بزدار اتنے بھی سادہ نہیں کہ حکمرانی کے مزے بھی نہ لیں۔ میں نے گزشتہ ہفتے ایک خبر دی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس نے سیون کلب میں واقع وزیراعلیٰ ہاؤس کی تزین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جس میں نہ صرف گھر کی رینوویشن کی گئی بلکہ باتھ رومز بھی نئے بنائے گئے، فرنیچر، قالین، پردے اور بہت کچھ بدل دیا گیا۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ عثمان بزدار کے بیڈ روم کے پردے ہی صرف پچیس ہزار روپے مربع فٹ میں بنے۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی مجھے بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ، اُن کے فیملی اور اُن کے ذاتی مہمانوں کے کھانے پینے کا خرچ بھی سرکاری خزانے سے ادا کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ سیون کلب سے ملحقہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی انیکسی بھی اکثر بزدار صاحب کے رشتہ داروں کے ہی زیرِ استعمال رہتی ہے۔
جب اس بارے میں نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے پوچھا تو سیدھے سوال (کہ سیون کلب کی تزین و آرائش پر کتنا پیسہ خرچ ہوا اور کیا وزیراعلیٰ، اُن کی فیملی اور رشتہ داروں کے کھانے پینے کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے؟) کا جواب دینے کے بجائے یہ تفصیلات فراہم کر دی گئیں کہ وزیر اعلیٰ نے کہاں کہاں کروڑوں کی بچت کی۔
باوجود اس کے کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا سوال گندم جواب چنا جیسا ردّعمل تھا، میں نے جوں کا توں خبر میں شائع کیا لیکن اس کے باوجود دوسرے دن پنجاب حکومت نے وہی ’سوال گندم جواب چنا‘ والا ردعمل باقاعدہ ہینڈ آؤٹ کی صورت میں جاری کر دیا تاکہ وزیراعظم اور باقیوں کو بھی پتا چل جائے کہ عثمان بزدار نے بڑی بچت کی اور یوں اصل بات چھپی رہے اور کوئی سیون کلب کی تزین و آرائش پر سوال نہ اٹھائے۔
لگتا ہے یہاں سب ایک دوسرے کو ماموں بنانے کے ہی چکر میں پڑے ہیں اور اس میں بزدار صاحب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔