28 جنوری ، 2020
وزیراعظم عمران خان نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز سے کنارہ کشی کر لیں تو اُن کی کئی پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔
انگریزی محاورہ ہے کہ Increase of knowledge increase of sorrowجب عقل مت ہی نہیں ہو گی تو پھر پریشانی کاہے کی۔ یقیناً کوئی بھی سیاسی رہنما اِس نوعیت کی بات نہیں کہہ سکتا۔ اُن کا اصل مدعا یہ ہوگا کہ میڈیا اُن کی حکومت پر جو تنقیدی جائزے پیش کرتا رہتا ہے اُن سے چھٹکارے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگ اخبارات میں چھپنے والے ایسے آرٹیکل یا ٹی وی ٹاک شوز میں ایسی گفتگوؤں سے پرہیز کریں، اُن کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ عوام اخبارات اور ٹی وی کا مکمل بائیکاٹ ہی کر دیں۔
اس طرح تو محض جہالت پروان چڑھے گی، افواہوں کی فیکٹریاں لگیں گی اور جو بیروزگاری پھیلے گی وہ اس کے سوا ہو گی۔
درویش کی رائے میں وزیراعظم کو کہنا چاہئے تھا کہ لوگ حکومت مخالف پروپیگنڈے کو پڑھنے یا سننے سے اجتناب کریں تو وہ سکون میں رہیں گے اور اُنہیں حکومت یا ملک کے بارے میں بڑے وسوسے، خواب یا خیالات تنگ نہیں کریں گے کیونکہ کئی لوگوں کی تو روٹی ہی منفی باتوں کی تشہیر سے ہضم ہوتی ہے۔
جب کوئی انسان کسی شخص کی منفی باتیں ڈھونڈنے کے پیچھے پڑ جائے تو پھر کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے لیکن یہ کوئی اچھی عادت تو نہیں ہے۔ ہمیں دوسروں کے مثبت پہلوؤں پر بھی تو توجہ دینی چاہئے بصورت دیگر ایک محفوظ راستہ یہ بھی ہے کہ سیاسی موضوعات سے پرہیز کرتے ہوئے دیگر بہت سے مذہبی و سماجی معاملات ہیں، کچھ ادھر کا دھیان کر لیا جائے۔
ان دنوں ہمارے سوشل میڈیا پر ایک ٹی وی ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی بہت دھوم ہے۔ عرصہ ہوا جب ترکوں کا ایک ڈرامہ ’’میرا سلطان‘‘ کی کچھ قسطیں ملاحظہ کی تھیں، دیگر الجھنوں سے وقت ہی نہیں ملتا۔
ویک اینڈ پر جب رات گھر آیا تو ڈاکٹر خلعت النساء صاحبہ خبریں دیکھنے کے بجائے ٹی وی ڈرامہ ملاحظہ فرما رہی تھیں جس میں ایک دل کے مریض کو اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی تھی، پوچھا کہ ڈاکٹر صاحبہ آج آپ آپریشن کرنے جانے کے بجائے آپریشن دیکھ رہی ہیں۔
بولیں کہ اس ڈرامے کی بڑی دھوم تھی سوچا آخری قسط ہے دیکھ لوں۔ اس کے بعد درویش کی دلچسپی ملاحظہ کرتے ہوئے جانبر نہ ہونےوالے کردار کے متعلق کچھ معلومات فراہم کیں۔
سچی بات ہے کہ ڈرامے کا یہ ڈراپ سین طبیعت پر گراں گزرا اور اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ کیوں کبھی یہ ڈرامہ نہ دیکھا جس کی اس قدر دھوم ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر کے نام کا شہرہ ہے۔
کچھ لوگ ان کی توصیف میں رطب اللسان ہیں تو کچھ تنقید و مخالفت کے نشتر چلا رہے ہیں۔ تنقید کا حق ہر شخص کو ہے لیکن اگر کسی شخص نے ہمارے خانگی و عائلی مسائل کو زیر بحث لاتے ہوئے سماجی زیادتیوں یا ناہمواریوں پر توجہ مبذول کروائی ہے تو اس کی قدر اور عزت افزائی کی جانی چاہئے۔ جہاں تک اس کے اختتام کا تعلق ہے یہ ایک میلو ڈرامے کی طرح خوشگوار بھی ہو سکتا تھا۔
ہمارے افسانہ نگاروں اور لکھاریوں کی طرف سے اپنی تحریروں کو ڈرامائی اٹھان دینے یا انجام دیو داس جیسا کرنے کے بجائے سموتھ یا نارمل اسلوب میں عمومی انسانی رویے بھی دکھائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس ڈرامے کے ہیرو دانش کو اس قدر شدت غم میں لے جانے اور مار دینے کے بجائے سلجھاؤ کی بہتر راہ دکھائی جا سکتی تھی۔
جب مقصد سوسائٹی کی زیادتیوں اور ناروا رویوں کی درستی ہے تو پھر روایتی سوچ کی ہی تشہیر کیوں کی جائے۔ شدت کی روایت شکنی کئے بغیر نئی فکر، نئی سوچ کے دریچے کھولے جائیں کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔
ہمارے روایتی سماج میں مرد کی بےوفائی کو تو نہ صرف یہ کہ معاف کر دیا جاتا ہے بلکہ اس میں بڑی حد تک اس کے لئے اخلاقی یا سماجی جواز موجود ہے جو ہمیں روزمرہ کی زندگی میں صاف دکھائی بھی دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک مرد کیلئے سماجی طور پر زیادہ مشکل نہیں ہے کہ وہ اپنی پہلی محبت کے اوپر ایک دوسری محبت لے آئے، کہیں اس پر تنقید اٹھا کے دیکھیں دس حمایتی فتاویٰ لے کر پہنچ جائیں گے کہ یہ تو جی فلاں فلاں اصول کے تحت اس کا حق تھا مگر عورت کا معاملہ آ جائے تو معمولی جھانکی پر بھی بدچلنی کا حکم صادر ہو جائے گا۔
اگر ہم نے روایتی سوسائٹی کے اس جبر کو توڑنا ہے تو پھر دل کی اتنی کشادگی کرنا پڑے گی جس میں نہ صرف یہ کہ معافی کا عنصر چھایا ہوا ہو بلکہ محبت کا دریا منافرت کی تمام کثافتوں کو بہا کر لے جائے اور اس میں کسی نوع کا احسان جتلانے والی نفس امارہ کی آرزو نہ ہو۔
ڈاکٹر صاحبہ نے سوال کیا کہ اس معصوم بچے کی ٹیچر کا کیا قصور تھا اسے کیوں رلایا گیا اور پھر اگر یہ دونوں میاں بیوی مل جاتے تو آپ اس ٹیچر کے حقوق کا کیا بندوبست کرتے ہیں؟ عرض کی کہ پہلی بات سب پر واضح رہنی چاہئے کہ دوستی چاہے جتنی بھی ہو جائے لیکن قانون کی یہ بندش، مجبوری یا احترام ہے کہ سب اس کی پاسداری کریں۔
غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی کہ یہ عین فطرتِ انسانی ہے مگر سوسائٹی کو منضبط رکھنے کے تقاضوں کی پاسداری سے اگر انکار کر دیا جائے تو پھر سوائے انارکی کے کچھ باقی نہیں بچے گا۔
اگر کوئی ایسے بندھن میں نہیں آنا چاہتا تو بے شک نہ آئے مگر جب معاہدہ کر لیا ہے تو پھر لغزشوں کے باوجود فائق حق اس کا ہو گا جس سے کنٹریکٹ ہو چکا ہے جب تک یہ عقد باضابطہ طور پر اختتام پذیر نہیں ہو جاتا تمام تر محبتوں اور دوستیوں کے باوجود دوسروں کو اس میں منہ ماری سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنا درجہ معاہد سے کمتر سمجھنا چاہئے۔