04 فروری ، 2020
یوٹرن اچھے لیڈر کی پہچان ہوتے ہیں اس لئے وزیراعظم عمران خان نے ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت سے نکالے گئے تینوں صوبائی وزرا کو واپس لینے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔
اس یوٹرن کے لئے انہیں برطرف کئے گئے صوبائی وزرا عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد نے ملاقات میں رہنمائی فراہم کی اور یوں دیوار کو ٹکر مارنے کے بجائے خان صاحب نے وزیراعلیٰ محمود خان کو اسلام آباد طلب کیا اور یوٹرن کے فوائد سے آگاہ کرتے ہوئے برطرف وزرا کو واپس کابینہ میں لینے کی ہدایت جاری کر دی۔
اس دوران وزیراعظم نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو مطمئن کرنے کے لئے بتایا کہ انہوں نے تینوں وزراء پہ واضح کر دیا ہے کہ وزیراعلیٰ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا انہیں چیلنج کرنا ہے کیونکہ وہ ان کے نمائندے ہیں جبکہ آپ کے بااختیار ہونے کا یہی ثبوت ہے کہ آپ کے ذریعے انہیں صوبائی کابینہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں وزیراعظم کو اپنے کئے گئے فیصلے پہ کچھ دیر کے بعد نظرثانی کرنا پڑ جاتی ہے اور پھر انہیں یوٹرن کو اچھے لیڈر کی پہچان قرار دینا پڑتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پارٹی کے اندرونِ خانہ اختلافات کی خبریں زبان زدِ عام تھیں تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وزیراعظم تک یہ اطلاعات نہ پہنچی ہوں تو پھر جہاں انہوں نے بروقت مداخلت کرکے ان اختلافات کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کی وہیں ان کی خاموشی نے اس گروپ بندی کو مزید ہوا دی۔
بطور پارٹی چیئرمین عمران خان کو سنی سنائی باتوں پہ یقین کرنے کے بجائے ان ناراض ارکان کے تحفظات سننے کا وہی کام پہلے کرنا چاہئے تھا جو انہیں ناخوشگوار فیصلہ لینے کے بعد کرنا پڑا اور پھر اس فیصلے کو بھی تبدیل کرنا پڑا۔
ایک اور اہم پہلو کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق اگر ان ناراض رہنماؤں کو شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا اور پھر پہلے وارننگ دینے کے بعد انہیں صوبائی کابینہ سے نکالنے کا انتہائی اقدام اٹھایا جاتا تو شاید خان صاحب کا دل بھی اس فیصلے پہ بوجھل نہ ہوتا۔
سیاست کے سینے میں چونکہ دل نہیں ہوتا اس لئے خان صاحب نے پشاور سے کوئٹہ اور کراچی سے لاہور تک پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی دراڑوں اور اتحادی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اختلافات سے نمٹنے کا حل عاطف خان جیسے اپنے انتہائی قریب رہنماؤں کو قربانی کا بکرا بنا کر ڈھونڈنا مناسب سمجھا لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو وزیراعظم کا یہ اقدام سیلاب کے آگے بند نہیں باندھ سکتا۔
سیاست کے اسرار و رموز سے آگہی رکھنے والے یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پارٹی رہنماؤں سے متعلق اس طرح کا سخت اقدام صرف اس صوبے تک ہی محدود ہو سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں چونکہ تحریک انصاف کے پاس صوبائی اسمبلی کی 145میں سے 95نشستیں ہیں ،چار آزاد ارکان بھی اس کے ساتھ ہیں اور اپوزیشن صرف 46نشستوں تک محدود ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بلوچستان عوامی پارٹی بھی اس کی حلیف کے بجائے حریف ہے۔ اس صورتحال میں چونکہ تحریک انصاف کو کسی قسم کی بلیک میلنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے اس لئے بطور چیئرمین عمران خان کسی کو پارٹی میں رکھیں یا نکالیں اس سے ان کی خیبر پختونخوا حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری طرف 65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف محض سات ارکان کیساتھ باپ کی مخلوط حکومت میں بطور اتحادی شامل ہے اور وہاں پارٹی کےاندر اختلافات پہ اسے صوبائی صدر یار محمد رند کو بھی صوبائی کابینہ میں شامل کرانا پڑا ہے۔
اسی طرح 168 رکنی سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی محض 30 نشستیں ہیں جبکہ گزشتہ عرصے میں تحریک انصاف کی طرف سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جو بار آور ثابت نہیں ہو سکیں بلکہ الٹا وہاں پارٹی ارکان کے ادھر ادھر جانے کے خدشات موجود ہیں اس لئےخان صاحب خیبر پختونخوا طرز کا ایکشن وہاں لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
رہی بات پنجاب کی تو وہاں تو پارٹی اختلافات کا اظہار کرنے والوں کو خیبر پختونخوا کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بجائے پہلے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ترقیاتی فنڈز دینے اور ان کے کام کرنے کی یقین دہانیاں کرا کے انہیں بہلانے کی کوشش کی اور پھر وزیراعظم کو خود جا کر چیف سیکرٹری اور آئی جی کو تحریک انصاف کے تمام ارکان سے تعاون کرنے کی ہدایات دے کر سب کو رام کرنا پڑا کیونکہ وزیراعظم سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ ان کے وسیم اکرم پلس کو ہٹانے کی آڑ میں در اصل پنجاب میں ان کے پاؤں کے نیچے سے کارپٹ کھینچا جا رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 196ہے جبکہ اس میں تحریک انصاف کے 181ارکان ہیں دوسری طرف اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 173ہے یوں پی ٹی آئی کو صرف 8ارکان کی برتری حاصل ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کی اسمبلی میں 10نشستیں ہیں جبکہ چار آزاد اور راہ حق پارٹی کے ایک رکن کی حمایت سے پی ٹی آئی کی 8کی عددی برتری 23تک جا پہنچتی ہے۔
یہی وجہ ہے اگر چوہدری برادران میں سے کوئی بھی ذرا سا گلے شکوے پہ مبنی بیان دیتا ہے تو حکمران جماعت کی قیادت کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی اس 8 ارکان کی عددی برتری کے خاتمے کیلئے مسلم لیگ ن نے نقب لگانا شروع کر دی ہے جس کے نتائج سامنے آنے میں اب زیادہ عرصہ نہیں لگے گا کیونکہ چھانگا مانگا کی سیاست کرنیوالے اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں، وہ بس اشارے کے منتظر تھے جو انہیں دیا جا چکا ہے۔
باقی بچی وزیراعظم عمران خان کی کرسی تو اس کے پائے بھی محض اتحادیوں کی 28 میخوں سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن کو ایوان میں 172 ارکان پورے کرنے کیلئے 14 ووٹ درکار ہیں اور یہ ووٹ حاصل کرنا کتنا دشوار یا آسان ہے اس کا اندازہ اتحادی جماعتوں کے نت نئے بڑھتے ہوئے تحفظات اور مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مذکورہ عددی پوزیشن اور ملک بالخصوص عوام کو درپیش مسائل کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھلے مٹھی کو جتنا زور سے بند کرنے کی کوشش کریں وہ ریت کو پھسلنے سے نہیں روک پائیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔