دنیا
Time 07 فروری ، 2020

کورونا وائرس کیسے پھیلا؟ سائنسدانوں نے ’پینگولن‘ پر شبہ ظاہر کردیا

چین کی ساؤتھ چائنا ایگریکلچر یونیورسٹی کے محققین نے اس پُراسرا وائرس کو انسانوں میں منتقل کرنے کا شبہ پرت دار جانور ’پینگولن‘ پر ظاہر کیا ہے— فوٹو: فائل

چین کے سائنس دانوں نے کورونا وائرس کے پھیلنے میں معدومیت کے خطرے سے دوچار جانور ’پینگولنُ پر شک ظاہر کیا ہے کہ یہ پُراسرار کورونا وائرس کو انسانوں میں منتقل کرنے کا سبب بنا۔

چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے پُراسرار کورونا وائرس نے اب تک 630 افراد کی جان لے لی ہے اور تقریباً 31 ہزار افراد میں اس وائرس کے موجود ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

سائنسدانوں کو شروع ہی سے اس بات کا شک ہے کہ کورونا وائرس گزشتہ برس کے آخر میں چین کے شہر ووہان کی مارکیٹ سے کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا۔

چین کی ساؤتھ چائنا ایگریکلچر یونیورسٹی کے محققین نے اس پُراسرا وائرس کو انسانوں میں منتقل کرنے کا شبہ پرت دار جانور ’پینگولن‘ پر ظاہر کیا ہے البتہ انھوں نے اس سے متعلق مزید کوئی معلومات جاری نہیں کی ہیں۔

اس نئے وائرس کے حوالے سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے آگے پھیلا تاہم محققین کہتے ہیں کہ یہ وائرس چمگادڑ سے براہ راست انسانوں تک نہیں پہنچا بلکہ درمیان میں کسی اور جانور نے اس وائرس کو آگے پہنچانے کا کام کیا ہے۔

چین کے سائنس دانوں نے یہ جاننے کیلئے 1000 سے زائد جنگلی جانوروں کے نمونے حاصل کیے جن کے مشاہدے سے یہ معلوم ہوا کہ پینگولن میں موجود وائرس کے کروموسوم کی ترتیب کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے کروموسوم کی تربیب سے 99 فیصد تک مماثلت رکھتے ہیں۔

بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ قدرت (آئی یو سی این) کے مطابق پینگولن کو دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل کیا جانے والا جانور تصور کیا جاتا ہے، افریقا اور ایشیا میں پچھلے کئی سالوں میں 10 لاکھ سے زائد پینگولن کو پکڑا جاچکا ہے۔

چین اور ویت نام کی بازاروں میں پینگولن خرید و فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں، پینگولن کے جسم پر موجود چھلکوں کا کوئی طبی فائدہ نہیں ہے مگر اس کے باوجوید اس کے ان کے چھلکوں کو ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے گوشت کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔

مزید تفصیلات فراہم کی جائیں، جانوروں کے ڈاکٹرز کا مطالبہ

ماہرین نے چین کے سائنس دانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سے متعلق مزید معلومات فراہم کریں۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز ووڈ کا کہنا ہے کہ صرف یہ بتانا کہ پینگولن میں موجود وائرس کے کروموسوم کی ترتیب کورونا وائرس کے مریض کے جینوم سے مماثلت رکھتی ہے، کافی نہیں ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ وائرس سے متاثرہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے بھی ایسے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے پروفیسر جوناتھن بیل کا کہنا تھا اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ پینگولن کے جینیات کی معلومات حاصل کی جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ پینگولن میں پائے جانے والے وائرس اور انسانوں میں موجود وائرس میں کس طرح ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ جنوری میں چین میں کورونا وائرس کے پیشِ نظر جنگلی جانوروں کی تجارت پرعارضی طور پابندی عائد کردی گئی تھی۔

چین پر یہ الزام ہے کہ وہاں معدومیت کے خطرات سے دوچار جانوروں کی تجارت کی جاتی ہے جن کا استعمال غذا کے طور پر یا قدیم روایتی دواؤں کی تیاری میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انٹرنٹ پر چین کے شہر ووہان کی مارکیٹ میں موجود مختلف جانوروں یا ان جانوروں سے بنی چیزوں کی قیمتیں گردش کر رہی تھیں جن میں لومڑی، مگرمچھ، بھیڑیے کے بچے، سانپ، چوہے، مور، خارپشت، اونٹ کا گوشت اور دیگر 112 چیزیں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 03-2002 میں چین اور ہانک کانگ میں پھیلنے والے سارس وائرس نے بھی سیکڑوں افراد کی جان لی تھی اور سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سارس وائرس ابتدائی طور پر چمکادڑ میں پیدا ہوا اور پھر ایک قسم کی بلی ’مشک بلاؤ یا گربہ زباد‘ کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔

اس بارے میں پروفیسر جیمز ووڈ کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں کی تجارت کے خاتمے کے ذریعے ہی اس طرح کے خطرناک مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے جو جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

مزید خبریں :