19 فروری ، 2020
سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی انتظامیہ سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے جس کے بعد اس نے مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ ساتھ اب وی پی این سروس پر بھی پابندی عائد کردی۔
مقبوضہ وادی میں 6 ماہ سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ ہے جس کے باعث کشمیری بنیادی ضروریات سے محروم ہوگئے ہیں جب کہ مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق کشمیری رابطے کے لیے پروکسی سروس ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک ( وی پی این) استعمال کر رہے تھے جس کو بھی قابض بھارتی حکومت نے معطل کردیا ہے۔
بھارتی قابض انتظامیہ نے مؤقف اپنایا ہےکہ بہت سے وی پی این صارفین کشمیر میں اشتعال بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بھارتی قابض انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 100 سے زائد صارفین کو پکڑا گیا ہے جو وی پی این سروس کی مدد سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹا مواد پوسٹ کر رہے تھے اور بھارت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہے تھے تاہم مذکورہ صارفین کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل آرٹیکل 370 کو ختم کردیا اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کر دیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جب کہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر الیے۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا تھا۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے تھے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا تھا۔