27 فروری ، 2020
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 34 ہوگئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ہنگاموں سے متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کا فلیگ مارچ جاری ہے اور متاثرہ علاقوں کو مسلسل مانیٹر کیا جارہا ہے۔
نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروِند کجریوال اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے فسادات سے متاثر ہونے والے شمال مشرقی علاقوں کا دورہ کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جعفر آباد، موج پور، بابر پور، گوکل پوری، جوہر انکلیو اور شو وہار میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہناہےکہ بھارت کے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے کشیدہ حالات کے باعث امتحانات میں شرکت نہ کرنے والے طلبہ کے دوبارہ امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں بورڈ نے امتحانات میں شرکت نہ کرنے والے طالب علموں کی تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کردی ہیں۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے نئی دہلی فسادات میں اب تک 34 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جب کہ 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے نئی دہلی کی صورتحال پر وفد کے ہمراہ بھارتی صدر رام ناتھ کووِند سےملاقات کی۔
سونیا گاندھی نے مودی حکومت اور نئی دہلی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور شہر کی صورتحال پر انہیں خاموش تماشائی قرار دیا جب کہ سونیا گاندھی نے ایک بار پھر وزیر داخلہ امیت شاہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد مسلمان بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔