Time 04 مارچ ، 2020
انٹرٹینمنٹ

ماروی سرمدکیلئے نامناسب الفاظ پر خلیل الرحمان قمر تنقید کی زد میں

پاکستان میں ان دنوں سوشل میڈیا سمیت دیگر ذرائع ابلاغ میں خواتین کے حقوق کے نام  پر ہونے والے عورت مارچ پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور اس حوالے سے مختلف آراء رکھنے والے افراد اپنی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔

تاہم اس  معاملے میں گذشتہ روز سے اچانک شدت آگئی جب ایک نجی ٹی وی  پر ہونے والے  شو میں معروف  ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر  اور  انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔

شو کے دوران ایک سوال پر خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ اگر عدالت (لاہور ہائیکورٹ) نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے نعروں پر پابندی لگا دی ہے تو جب میں  یہ جملہ بولتے سنتا ہوں تو میرا کلیجہ ہلتا ہے۔‘ اس موقع پر ماروی سرمد نے مداخلت کی اور  ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ دہرایا اور اس سے منسلک اپنی دیگر تشریحات بیان کیں جس پر خلیل الرحمان قمر سخت سیخ پا ہوگئے۔

اس دوران خلیل الرحمان قمر  کی جانب سے ماروی سرمد کے لیے سخت اور نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے جس پر  انہیں نا صرف سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا ہے بلکہ اس معاملے پر ایک نئی بحث بھی چھڑ  گئی ہے۔

شو کے اس حصے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے اور اس  حوالے سے  ٹوئٹر پر  مختلف ٹرینڈز بھی چل رہے  ہیں۔

مختلف شعبوں سے تعلق رکھنےو الے افراد جن میں اداکار، سیاستدان، صحافی اور  عام شہری شامل ہیں خلیل الرحمان قمر کے اس فعل کی مذمت کررہے ہیں۔

معروف اداکارہ ماہرہ خان نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میں نے جو کچھ بھی سنا اور دیکھا اس پر حیران ہوں! یہ وہی آدمی ہے جو ٹی وی پر خاتون کو برا بھلا کہتا ہے اور پھر بھی اسے ایک کے بعد ایک پروجیکٹ بھی مل رہے ہیں'۔

ماہرہ خان نے مزید لکھا کہ اس مخصوص سوچ کے تسلسل کو قائم رکھنے میں ہم بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔

اداکار اور فلمساز سرمد کھوسٹ نے اپنی ٹوئٹ میں تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ  خلیل الرحمان قمر نے جو کچھ کہا ہے اور جو کچھ وہ گذشتہ چند سالوں سے کہتے اور لکھتے آرہے ہیں وہ کوئی نیا عمل نہیں بلکہ یہ ہماری ناقص اور کمزور بنیادوں پر کھڑی انڈسٹری کی عکاسی ہے۔

 سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ اس میں ہمارے ناظرین اور تمام صارفین سمیت ہم سب ذمہ دار ہیں اور  اس کی اصلاح  کے لیے صرف اپنےکی بورڈ پر غصہ اتارنے سے کہیں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمان  کا کہنا ہے کہ وہ اس نجی ٹی وی کے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہیں کریں گی جب تک خلیل الرحمان قمر کابائیکاٹ نہیں کردیا جاتا اور اس  شو کی میزبان اس معاملے پر معافی نہیں مانگتیں ۔

شیری  رحمان کا مزید کہنا ہے کہ  اس طرح کے شو کرنے والوں کو معافی نہیں ملنی چاہیے جس میں خواتین کی عزت نہ ہوتی ہو۔اس طرح کی فضول چیزوں کو بند ہونا چاہیئے، عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔

سینیئر صحافی انصار عباسی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا جسم ہو یا ہماری زبان دونوں اُن حدود و قیود کے پابند ہیں جو ہمارا دین مقرر کرتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی مونس الٰہی  نے لکھا کہ خلیل الرحمان قمر  نے جس انداز میں ماروی سرمد سے گفتگو کی وہ اس پر حیران ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی خلیل الرحمان قمر کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا  ہے کہ وہ اس سے قبل انسانی حقوق کی سینیئر کارکن طاہرہ عبداللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی نامناسب رویہ اپناچکے ہیں، اس طرح کا عمل کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن  آف پاکستان نے خلیل الرحمان قمر سے سب کے سامنے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے پیمرا پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس ٹاک شو کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے۔

نوبل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاالدین یوسف زئی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ 'ان صدیوں سے بیمار مردوں كو مہذب ہونے میں وقت لگے گا، لیكن یقین كیجئے آنے والا كل عورتوں كا ہے۔ گالی گلوچ دراصل بوكھلاہٹ اور ہار كی پہلی نشانی ہے، پر آپ کے سچ اور دلیل كی آواز دور دور تك جائے گی۔

 ہدایت کار نبیل قریشی نے بھی خلیل الرحمان قمر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہےکہ ’جون ایلیا ٹھیک کہتے ہیں بہت سے لوگوں کو پڑھنا چاہیے مگر وہ لکھ رہے ہیں‘۔


نجی چینل کے نیوز ڈائریکٹر اور سینیئر صحافی نصر اللہ ملک نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ماروی سرمد سے معذرت کی ہے اور اس معاملے پر سخت کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔

کچھ صارفین نے خلیل الرحمان کے ناقابل برداشت رویے پر تنقید کی خوب بوچھاڑ کی جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ  خلیل الرحمان قمر نے جو کہا وہ قابل مذمت ہے لیکن ماروی سرمد کو بھی جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

کچھ صارفین نے چینل انتظامیہ پر تنقید کی کہ انہیں ایسی شخصیات کو بلانا ہی نہیں چاہیے تھا، ممکن ہے کہ یہ سب پروگرام کی ریٹنگ کے لیے کیا گیا ہو۔

مزید خبریں :