06 مارچ ، 2020
پاکستان کی معروف گلوکارہ قرۃالعین بلوچ نے حقوق مانگنے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
عورت مارچ کے متنازع نعرے ’میرا جسم میری مرضی‘ کو لے کر ایک نا ختم ہونے والی بحث کا سلسلہ تا حال نہیں تھم سکا۔
جہاں متعدد لوگوں کی جانب سے عورت مارچ اور اس دن خواتین کی جانب سے اٹھائے جانے والے پلے کارڈز کی حمایت کی جارہی ہے تو وہیں بہت سے لوگ اس کے خلاف بھی ہیں۔
اس حوالے سے مختلف شوبز شخصیات کی جانب سے ملے جلے انداز میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
’وہ ہم سفر تھا‘ گانے سے شہرت حاصل کرنی والی گلوکارہ قرۃ العین بلوچ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کے بعد انہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قرۃ العین بلوچ نے ٹوئٹر پر حقوق مانگنے کے لیے آواز بلند کرنے والی خواتین پر تنقید کی۔
گلوکارہ نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اصل فیمینسٹ کام کرتی ہیں، اپنے حقوق مانگنے کے لیے چیخ و پکار مچانے میں وقت ضائع نہیں کرتیں‘۔
قرۃالعین بلوچ کے اس ٹوئٹ پر ایک نئی بحث چھڑ گئی اور لوگوں کی جانب سے انہیں آڑے ہاتھ لیا گیا۔
ندا کرمانی نامی صارف نے قرۃ العین بلوچ کے بیان کو مایوسی قرار دیا۔
حنا تبسم نے کہا کہ ’آج آپ جو یہ ٹوئٹ کرنے کے قابل ہیں وہ صرف ان لوگوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس حق کے لیے آواز اٹھائی تھی۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی‘۔
ہما عامر نامی صارف نے کہا کہ’ اپنے آپ کو شرمندہ مت کریں، پہلے تھوڑی تحقیق کریں پھر آئیں‘۔