09 مارچ ، 2020
آخر کار گزشتہ روز خواتین کا عالمی دن منا لیا گیا اور اسلام آباد میں پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے کے علاوہ متنازع عورت مارچ بھی اختتام پذیر ہوا، لیکن یقیناً یہ معاملہ یہاں تھمنے والا نہیں، اب سوشل میڈیا پر کچھ نئے نعرے موضوع بحث بنیں گے تو کچھ نئے ٹرینڈز گردش کریں گے جس پر کئی روز تک دھواں دھار تبصرے بھی جاری رہیں گے اور یوں عورت مارچ کے حمایتی اور مخالفین کی جانب سے آفٹر شاکس ضرور دیکھنے کو ملیں گے۔
8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ منعقد کیا گیا۔
کراچی میں یہ مارچ فرئیر ہال میں منعقد کیا گیا جس میں سماجی کارکنان نے ٹیبلوز، تقاریر، دلچسپ پلے کارڈز اور فلک شگاف نعرے لگا کر خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل اجاگر کر کے اپنے مطالبات بھی پیش کیے۔
1-اسکولوں، دفاتر، گھروں، سرکاری اداروں میں جنسی ہراسانی کا خاتمہ
2-معزور افراد کے حقوق کی یقینی حفاظت
3-تولیدی صحت کو یقینی بنایا جائے
4-خواتین، خواجہ سراؤں اور صنف غیر ثنائی افراد کی سیاست میں شمولیت
5-ماحولیاتی صفائی اقلیتوں کے حقوق اور جبری تبدیلی مذہب کا خاتمہ
6-شہر کا حق
7-استحصال اور تفریق سے پاک معاشی انصاف کا نظام
8-میڈیا میں منصفانہ اور اخلاقی نمائندگی
مارچ میں خواتین اور مرد حضرات کی بڑی تعداد سمیت سیاسی، سماجی اور شوبز کی نامور شخصیات نے شرکت کی جن میں ماہرہ خان، شرمین عبید چنائے، حاجرہ یامین، میرا سیٹھی اور فیصل سبزواری شامل تھے۔
اس موقع پر خواتین کے ایک گروپ نے ریپ انتھم یعنی زیادتی کرنے والوں کے خلاف لہو گرمانے والا ایک نغمہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے پدرشاہی سے آزادی باآواز بلند مانگی۔
عورت مارچ میں نہ صرف ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد دکھائی دیئے بلکہ معاشرے میں غیر اہم سمجھے جانے والے افراد نے بھی شرکت کی اور کھل کر اپنے حقوق کا مطالبہ اور مسائل کا برملا اظہار کیا۔
گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ تحریم کہتی ہیں کہ آج میں اپنی ساتھیوں اور گھر والوں کے ساتھ عورت مارچ میں شرکت کر رہی ہوں جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہم بھی انسان ہیں، ہم غریب ضرور ہیں لیکن ہم خود کما کر کھا رہے ہیں، ہمیں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔
تحریم نے کہا کہ خدا کا شکر ہے مجھے اب تک کام کے دوران ہراسانی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اردگرد میری ساتھیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
تقاریر میں سماجی کارکنان نے جہاں خواتین کے حقوق اور مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی آزادی کا مطالبہ کیا وہیں خواجہ سراؤں نے بھی عورت مارچ میں شرکت کرکے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور مطالبات پیش کیے۔
خواجہ سراؤں نے شکوہ کیا کہ حکومت برائے نام ہمارے لیے بل تو پیش کر دیتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا، ہمیں معاشرے میں عزت کی روٹی نہیں ملتی، نہ ہی ہماری تعلیم کے لیے کوئی اسکول یا دیگر انتظامات کیے جاتے ہیں جب کہ ہم بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی شوبز کے علاوہ مختلف شعبوں میں تسلیم کیا جائے۔
گزشتہ تین برس سے منعقد ہونے والا عورت مارچ میں سب سے زیادہ توجہ پلے کارڈز کھینچتے ہیں اور اس مرتبہ بھی پلے کارڈرز پر لکھے گئے نعرے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔
نئے پلے کارڈز میں نمایاں رہنے والے نعروں میں 'عورت کو پڑھاؤ بوجھ مت بناؤ'، 'عورت کی جگہ مزاحمت میں ہے'، 'کورونا وائرس سے نہیں مرد سے ڈر لگتا ہے'، 'میرا مستقبل میری مرضی'، 'اس پر میں کچھ بھی لکھوں لوگوں کی ہٹے گی' شامل تھے۔
مگر ان سب نعروں کے باجود بھی سب کے لبوں پر متنازع نعرے "میرا جسم میری مرضی" کے چرچے تھے۔
اگرچہ گزشتہ برس کا پلے کارڈ "میرا جسم میری مرضی" سب کی توجہ سمیٹنے میں کامیاب رہا مگر ایک ایسا تنازع بھی کھڑا کر گیا جس پر پوری قوم ہی بول پڑی اور پھر عورت مارچ سے قبل ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کی اس نعرے کو لے کر تکرار نے میڈیا کو خوب مصالحہ دیا۔
"میرا جسم میری مرضی" کے بجائے 'میرا مستقبل میری مرضی" کا پلے کارڈ اٹھائے عورت مارچ میں اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ شریک مہر بانو جو گھریلو خاتون ہیں، نے کہا کہ جملے میں مجھے قابل اعتراض کچھ نہیں لگتا، مسئلہ سوچ کا ہے کیونکہ قابل اعتراض لفظ نہیں قابل اعتراض سوچ ہے، اگر لوگوں کو اس کا مفہوم سمجھ نہیں آ رہا تو وہ بجائے اس پر شور مچانے کے ہمارے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔
شائستگی سے مہر بانو نے ہاتھ میں پکڑے 'میرا مستقبل میری مرضی" کے پلے کارڈ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ تمام لڑکیوں کا مستقبل ان پر منحصر ہونا چاہیے، چاہے ان کی تعلیم کا معاملہ ہو یا پھر شادی کا۔
دوسری جانب عورت مارچ کو سپورٹ کرنے والی مگر متنازع نعرے کو ناپسند کرنے والی ہُما نامی طالبہ کا کہنا تھا کہ اس نعرے کو ضرور تبدیل ہونا چاہیے، اصل مسائل لڑکیوں کی تعلیم اور ان پر ہونے والا تشدد ہے، پردے میں رہ کر بھی ہم سب کام کر سکتے ہیں۔
ہما کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کے واقعات سے بچنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے مضبوط قانون سازی کی جائے اور معاشرتی تربیت کے لیے آگاہی پروگرامز کا اہتمام کیا جائے جس میں انہیں صحیح غلط کی تعلیم دی جائے اور بتایا جائے کہ ہماری بنیاد کیا ہے ہمیں مذہب زندگی گزارنے کے لیے کیا طریقہ بتاتا ہے۔
اس دوران ایک نوجوان طالب علم صہیب جو اپنی والدہ کے ہمراہ مارچ میں شریک تھا، نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری یہاں آنے کی دو اہم وجوہات ہیں، پہلی کے اس بات کی آگاہی دی جائے کے لڑکوں کی تربیت بھی اتنی اہم ہے جتنی لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ اگر پوری دنیا میں دیکھا جائے ظلم و تشدد کرنے والا مرد ہی ہوتا ہے، سب سے زیادہ جرائم کرنے والا بھی مرد ہی ہوتا ہے۔
دوسری اہم وجہ بتاتے ہوئے صہیب نے کہا کہ جب کوئی باپ اپنی بیٹی کو گھر سے باہر بھیجتا ہے تو اسے خوف کسی عورت کا نہیں بلکہ ایک مرد کا ہی ہوتا ہے، کہیں اس کی بیٹی کسی مرد کے ہاتھوں حادثے کا شکار نہ ہو جائے تو معاشرے میں اس بات کو واضح کرنا بےحد ضروری ہے کہ عورت کو مرد کا خوف نہیں ہونا چاہیے، اسے بھی تمام شعبوں میں یکساں شامل کرنا چاہیے، ہمیں مرد نہیں انسان بن کر انسانیت دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو پدر شاہی سے نجات ملے۔
ایسے ہی صہیب کی والدہ نے بھی عورت مارچ کی حمایت کرتے ہوئے لڑکیوں اور بچیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کو اہم قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا جسم میری مرضی بالکل درست نعرہ ہے کیونکہ وجود جسم سے شروع ہوتا ہے مگر ہمارے کلچر میں جسم لفظ کو غلط مفہوم سے سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جنہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ مارچ بے مقصد ہے، یہ جس آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہ مغربی آزادی ہے، ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں، ہمیں ہمارا مذہب آزادی بھی دیتا ہے اور حقوق بھی، پاکستان کی خواتین آج ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ملک کا نام روشن کر رہی ہیں، آخر یہ آزادی نہیں تو پھر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو چیز بے حیائی سے منسوب ہو اس پر سمجھایا جا سکتا ہے لہذا عورت مارچ کے نعرے بھی غلط ہیں اور سوچ بھی غلط ہے۔
مارچ میں شریک نزہت نامی خاتون نے کہا کہ پہلے زمانے کی خواتین میں گھر بسانے کا شوق ہوتا تھا لیکن ہماری بچیوں میں بے صبری پائی جاتی ہے، انہیں ترقی کی آڑ میں کونسی آزادی چاہیے مجھے معلوم نہیں، ہمیں اسلام کے قاعدے پر چلنا چاہیے، اس قسم کی مارچ سے کچھ تبدیل نہیں ہونے والا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دراصل سوشل میڈیا نے آزادی کو غلط رنگ دے دیا ہے، ہر ایک کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا ہے، یہی وجہ ہے ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں خواتین نے ڈنکا بجا بجا کر اور نعرے بازی کر کے عورت مارچ مکمل کیا وہیں مخالف مرد حضرات نے بھی ریلیاں نکال کر اور خلیل الرحمان قمر کی حمایت میں نعرے بازی کر کے خوب شور شرابا کیا۔
تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت مارچ سے کیا معاشرے میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ کیا ان مردوں کو غیرت آجائے گی جن کی ہر گالی ماں بہن سے منسوب ہوتی ہے یا پھر جنسی زیادتی اور ہراسانی کے کیسز میں کمی واقع ہو جائے گی؟
یہ سب نہیں تو کیا مارچ مخالف لوگ کامیاب ہو گئے؟ کیا وہ خواتین کو پردے کا درس دے کر اپنی آخرت کے لیے بخشش پا گئے؟ خیر کوئی تبدیلی آئے یا نہ آئے خواتین کے عالمی دن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہم چاہے مرد ہوں یا عورت ہمیں بحیثیت معاشرہ کرادر سازی کی اشد ضرورت ہے، حقوق مرد و عورت دونوں کے پاس ہیں، مسئلہ صرف شعور اور انہیں استعمال کرنے کا ہے۔