Time 26 مارچ ، 2020
بلاگ

اک نظر اپنی قوتِ مدافعت پر بھی!

کھانے پینے سے، لائف اسٹائل سے، فوراً اپنی خوراک بدلیں—فوٹو فائل

آپ ان کے سامنے بیٹھیں گے، ان کی نظر آپ کے چہرے پر پڑے گی، وہ زیرِلب مسکرائیں گے اور کچھ پوچھے، بتائے بنا بولنا شروع کر دیں گے، آپ کو نیند نہیں آتی، آپ تو بےچینی کا گھر بن چکے، آپ بلاوجہ غصہ کرتے ہیں، مایوسی، ڈپریشن پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔

آپ کو آگے چل کر دل کی تکلیف ہو سکتی ہے، آپ کے گردوں کی اوور ہالنگ ہونے والی، آپ کے دماغ کا زنگ اترنے والا، کیا خیال ہے، پھر سے جوان نہ کر دوں دل کو، وہ بولتے جائیں گے، بولتے جائیں گے، آپ پھٹی آنکھوں، کھلے منہ سے سنتے جائیں گے، سنتے جائیں گے، اچانک وہ بات کرتے کرتے رک کر پوچھیں گے، کیا یہ سب ہونا چاہئے، آپ ہڑبڑا کر کہیں گے۔

کیوں نہیں، مگر یہ سب کیسے ہوگا، وہ کہیں گے، بہت آسان، چند ٹیسٹ، ٹیسٹوں کا معائنہ، معائنے کے بعد آپ کی خوراک میں ترتیب دوں گا، کچھ وٹامنز کھانا ہوں گے، آپ ٹیسٹ کروائیں گے، وہ ٹیسٹوں کے معائنے کے بعد آپ کا خوراک چارٹ بنائیں گے، کچھ وٹامنز دیں گے اور پھر اگلے 3ماہ میں آپ کا اندر، باہر بدلنا شروع ہو جائے گا۔

یہ میرے ساتھ ہو چکا، یہ ہزاروں کے ساتھ ہو چکا، یہ ہو رہا، یہ ڈاکٹر عظمت مجید کر رہے، پاکستان کے پہلے ’علاج بالغذا‘ کے ڈاکٹر، مکینیکل نیوٹریشن میں پاکستان کے واحد ڈاکٹر، فوڈ اینڈ نیوٹریشن میں پی ایچ ڈی، دنیا کے نامی گرامی غذائی ماہرین میں سے ایک، آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں، آپ کو ڈاکٹر صاحب کے ہٹے کٹے، صحتمند مریض مل جائیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کی بتائی خوراکیں کھا رہے، وٹامنز لے رہے، ہر قسم کی دوائیوں سے بچے ہوئے، میں نے خود دیکھا، جو صبح و شام اینٹی بایوٹک گولیاں کھا رہا تھا، ڈاکٹر صاحب نے اسے ہلدی پر لگا دیا۔

جو کولیسٹرول کا مریض تھا، ڈاکٹر صاحب نے اس کی خوراک کو ادل بدل کر اس کی زندگی سے کولیسٹرول کا جھنجھٹ نکال دیا، جو شوگر کا مریض، وہ شوگر پر قابو پائے بیٹھا، جو بلڈپریشر کا مریض تھا، وہ اپنے ناشتے، لنچ میں میں ردوبدل کرکے بلڈ پریشر سے جان چھڑا چکا، باتیں اور بھی، بلکہ باتیں اتنی کہ ختم ہی نہ ہوں، لیکن یہ باتیں پھر کبھی سہی، آج کچھ اور بتانا۔

ہوا یوں، جب سے کورونا وائرس نے چین سے نکل کر ملکوں ملکوں پھرنا شروع کیا، میں نے ڈاکٹر صاحب کو ڈھونڈنا شروع کردیا تاکہ پوچھوں کہ کورونا کا کوئی توڑ ہے مگر کبھی وہ نہ ملے، کبھی میں ان کی کال مس کر گیا، لیکن جب 7براعظموں میں خوف و ہراس کے جھنڈے گاڑتا کورونا وائرس پاکستان میں داخل ہوا، تب ایک شام سب کچھ چھوڑ چھاڑ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ڈھونڈا، کورونا ڈسکس کیا، آج ڈاکٹر صاحب کا یہ تعارف، اس تمہید کا مقصد یہی کہ یہ سب بتا کر کورونا پر ڈاکٹر صاحب کی رائے آپ تک پہنچا سکوں۔

علیک سلیک، چند رسمی جملوں کے بعد جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، یہ کورونا کہاں سے آگیا، اس سے بچنے کا کوئی طریقہ، تو کہنے لگے، کورونا تو بہت پہلے سے موجود، بس اس بار بلٹ پروف وردی پہن کر آگیا، بچا کیسے جا سکتا ہے، بار بار ہاتھ دھونا، ماسک پہننا، رش والی جگہوں پر نہ جانا، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا سمیت جو احتیاطی تدابیر بتائی گئیں، وہ اختیار کریں۔

یہ امید بھی رکھیں کہ تھوڑوں کو ہوگا، زیادہ بچ جائیں گے، شرح اموات کم ہوں گی، 14سے 40دنوں بعد اس کا اثر ختم ہو جائے گا، یہ امید بھی رکھیں کہ گرمی پڑے گی، یہ ختم ہو جائے گا، یہ امید بھی رکھیں کہ ایک دن اس کی ویکسین بھی بن جائے گی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں، امریکی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ نے 5یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر جو تحقیق کی اس کے مطابق، کورونا وائرس ہوا میں 3گھنٹے زندہ رہ سکتا ہے۔

گتے کے بورڈ پر 24گھنٹے، شیشے، پلاسٹک، ایلومنیم، اسٹین لیس سٹیل پر یہ 3دن زندہ رہ سکتا ہے، یہ بھی ذہنوں میں رہے، کورونا وائرس کا خول چربی سے بنا ہوا، یہ جہاں جائے چپک جائے، انفیکشن کرکے ہی چھوڑے، یہ بھی ذہنوں میں رہے، امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کے پروگرام ’نائٹ لائن‘ میں بتایا گیا کہ وہ بحری جہاز جو جاپان سے آیا۔

جس میں کورونا وائرس کے سینکڑوں مریض نکلے، جنہیں نکال کر شہر سے دور جزیرے پر 14دن رکھ کر گھروں کو بھجوایا گیا، اسی جہاز پر 17دنوں بعد جب سائنسدان گئے تو وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ 17دنوں بعد بھی جہاز کے کچھ حصوں پر نہ صرف کورونا وائرس زندہ موجود تھا بلکہ اس حالت میں موجود تھا کہ وہ آگے پھیل سکے۔

لہذا یہ وائرس بہت تیز، بہت ڈھیٹ، لمبا زندہ رہ سکنے والا، ہر موسم میں زندہ رہنے کی اہلیت والا، یہ ایک بار آپ پر حملہ ضرور کرے گا، ڈاکٹر صاحب لمحہ بھر کیلئے رکے، میں نے اگلا سوال کر دیا، ڈاکٹر صاحب بچاؤ کی کوئی ترکیب، بولے بالکل ہے۔

کورونا وائرس حملہ کر چکا، ہم حالت جنگ میں، ہم نے یہ جنگ لڑنا ہے لیکن یہ جنگ وہی لڑے گا جس کی قوتِ مدافعت مضبوط ہوگی، ہمیں اپنی قوتِ مدافعت کو بہترین بنانا ہوگا، قوت ِمدافعت کی بیٹری کو چارج کرنا ہوگا۔

اپنی پیدائشی قوتِ مدافعت کو زندہ کرنا ہوگا، میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات کاٹی، کیسے ہو سکتی ہے ہماری قوتِ مدافعت مضبوط، بولے، کھانے پینے سے، لائف اسٹائل سے، فوراً اپنی خوراک بدلیں، بازاری خوراکیں بند، بوتلیں، مشروبات، بیکری آٹمز بند، سفید چینی کے بجائے گڑ، شہد۔ بیف، مٹن کم سے کم، دالیں، سبزیاں، مچھلی زیادہ، کینو، گاجر سمیت موسمی فروٹ کھائیں، دہی کا استعمال، چکی کا آٹا، کولہو کے تیل میں کھانا پکائیں، لہسن، ادرک، لیموں کا استعمال زیادہ، لونگ، دار چینی کا استعمال کریں، 8گھنٹے کی نیند ضروری، پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ، اپنا ہاضمہ ٹھیک رکھیں۔

70سے 80فیصد قوتِ مدافعت کا تعلق ہاضمے سے، اور ہاں وٹامن اے، سی، ڈی کا استعمال ضروی، چند اسی طرح کے مزید رد و بدل کر لیں، کورونا سو بار حملہ کرے، سو بار ناکام ہوگا، ڈاکٹر صاحب بات کرتے ہوئے رکے، لمحہ بھر رک کردوبارہ بولے، مزے کی بات سنو، اٹلی، امریکہ، برطانیہ میں میرے کئی بابے اس وقت بھی کورونا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہوئے، کورونا ان پر حملہ آور ہوا مگر کچھ بگاڑ نہیں سکا۔پتا ہے کیوں، اس لیے کہ ان کی قوتِ مدافعت مضبوط تھی، لہٰذا احتیاط کریں، مگر عین ممکن کورونا احتیاطی تدبیروں کے پل پار کر جائے مگر یہ طے کہ کوئی کورونا وائرس مضبوط قوتِ مدافعت کا قلعہ فتح نہیں کر پائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔