01 اپریل ، 2020
اگر تنقید کرنے میں پھرتیاں دکھاتے ہیں تو تعریف کرنے میں بھی کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ بحران دراصل انفرادی اور اجتماعی کیریکٹر کا امتحان ہوتے ہیں اور اللہ پاک کا شکر ہے کہ ہم اس میں فیل نہیں ہو رہے۔
یہ درست کہ فرسٹ ڈویژن ہم سے بہت دور ہے لیکن تھرڈ ڈویژن بھی غنیمت ہے کیونکہ ہم ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں کسی بھی قسم کے رہنماؤں کو ’’انسان سازی‘‘ کی رتی برابر پروا نہیں لیکن اگر ایک طرف آٹا، گھی، دالیں، چینی، چاول جیسی بنیادی ضرورتوں کو ذخیرہ کرنے اور جعلی سینی ٹائزر بنانے والے انسان نما شیطان موجود ہیں تو وہاں چشمِ بددور ہمارے ڈاکٹرز اور پولیس افسران و اہلکار بھی ہیں جو نامساعد ترین حالات میں بھی پوری استقامت سے فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں۔
اور تو اور ’’واسا‘‘ جیسے محکمہ کی پرفارمنس بھی قابلِ فخر اور حیران کن ہے۔ڈاکٹرز سے تو امید اور توقع ہی مسیحائی کی ہوتی ہے۔ انتہائی قابلِ احترام پیشوں میں سے ایک، لیکن گزشتہ چند برسوں میں اک خاص قسم کی سیاست نے ان کے امیج کو خاصا متاثر و مجروح کیا لیکن موجودہ حالات میں وسائل کی کمی سے بےنیاز ہوکر جس بہادری سے یہ کمیونٹی قوم کی خدمت کررہی ہے، قابلِ فخر ہے اور قابلِ داد بھی۔
یہ خبر پڑھتے ہوئے میری آنکھیں بھیگ گئیں کہ مائیں اور بیویاں اپنے ڈاکٹر بیٹوں اور شوہروں کو ’’محاذ جنگ‘‘ پر جانے سے روک رہی ہیں لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرفروشی کے جذبہ سے سرشار مصروف ہیں۔
خدا ہر ماں کی گود اور ہر بیوی کا سہاگ سلامت رکھے، آمین۔ واقعی ہمارے ڈاکٹرز ’’ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ کے شایانِ شان ہیں لیکن پھر وہی بات کہ ڈاکٹرز سے تو اس سے کم کی امید ہی نہیں لیکن اک نظر پولیس کی پرفارمنس پر تو ڈالیں۔
اس مشکل وقت میں پولیس کے جوان جس دلیری، حوصلہ اور ہمت کے ساتھ ناکوں اور قرنطینہ مراکز کے ’’محاذوں‘‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں، حد درجہ قابلِ ستائش ہے۔ اپنے پیاروں اور لاڈلوں کو اللہ کے سہارے چھوڑ کر پولیس کی کل نفری کا تقریباً ایک تہائی اس جہادِ اکبر کے لئے وقف ہو چکا ہے۔
قرنطینہ مراکز میں ڈاکٹرز کے شانہ بشانہ کھڑے پولیس کے ان مجاہدوں کو ان کے آئی جی نے RPOکانفرنس میں اس طرح موٹی ویٹ کیا کہ آج وہ پہچانے نہیں جاتے کہ ان کا مینرازم تک تبدیل ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ان جوانوں اور ان کے کمانڈروں کو عوام کا احترام اور سلام پہنچے۔ رہ گیا ہمارا ’’سی سی پی او‘‘ تو جس کا نام ہی ’’ذوالفقار‘‘ ہو اس کے بارے کیا کہنے اور کیا کہنا کہ پورے کیریئر پر ’’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے‘‘ جیسے مصرع کا سایہ ہے۔رہ گیا تقریبا ًگمنام سا ’’واسا‘‘ تو جس تخلیقی و تعمیری انداز میں ’’واسا‘‘ والے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، یقین نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں سیاسی ہی نہیں انتظامی ٹریجڈیز کا بھی طویل سلسلہ ہے۔ انڈسٹریل بیسڈ (INDUSTRIAL BASED) ریسرچ کا نہ رواج ہے نہ کوئی روایت لیکن ایسے حوصلہ شکن کلچر میں بھی ’’واسا‘‘ نے لاہور کے تقریباً 20مقامات پر ایسے واٹر ٹینکرز کھڑے کر دیے ہیں جن میں کلورین ملا پانی ہے اور اس کے ساتھ لیکوڈ سوپ اور واش بیسن بھی۔
4000 سینی ٹائزر اس کے علاوہ جو ’’واسا‘‘ نے اپنی کم مایہ لیبارٹری میں تیار کئے۔ واقعی ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم ڈی ’’واسا‘‘ سید زاہد عزیز اور ان کی ٹیم بھی سلام و احترام کی حقدار ہے۔ سلامت رہو۔کوئی ادارہ، گروپ، کمپنی، محکمہ ’’کورونا چیلنج‘‘ سے نمٹنے کے لئے کسی بھی مثبت ایکٹویٹی میں مصروف ہو تو اپنے کام کی تفصیلات سے آگاہ کرے تاکہ میں اس کالم کے ذریعہ اپنے قارئین کو بھی آگاہ کر سکوں کہ اس بحران میں وہ تنہا نہیں ہیں۔
فوج کا ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا کہ کرائسز میں ان کے کردار سے بچہ بچہ واقف ہے اور عطار کو عطر کے تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اصل مقصد یہ بتاتا ہے کہ تمام تر سیاسی شر اور شرارتوں کے باوجود سویلین اداروں میں اب بھی دم خم موجود ہے حالانکہ کوتاہ نظر اور کم ظرف سیاست نے انہیں برباد کرنے میں کوئی کس نہیں چھوڑی ۔’’اک ستم اور مری جاں ابھی جاں باقی ہے‘‘
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔