Time 13 اپریل ، 2020
بلاگ

وزیراعظم کی بات سنیں!

فوٹو فائل—

وزیراعظم عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر سخت لاک ڈاؤن جاری رہا تو پھر کورونا وائرس سے بڑا خطرہ ہمارے ہاں بھوک کا ہوگا جس کے نتائج اتنے سنگین ہو سکتے ہیں کہ شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

آگے کیا ہوگا، اس کا فیصلہ تو ایک دو دن میں ہو جائے گا لیکن لاک ڈاؤن پر زور دینے کے بجائے حکومت کیساتھ ساتھ میڈیا کو اُس نئے طرزِ زندگی یعنی New Normalکے بارے میں آگاہی پیدا کرنا چاہیے جسے کورونا کی وبا کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنانا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کورونا کے بارے میں پھیلائے گئے خوف کو ختم کیا جائے۔ یہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس ضرور ہے لیکن شرح اموات کے اعتبار سے اور خصوصاً پاکستان اور خطے کے دوسرے کئی ممالک میں جو اس کا رجحان رہا اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوے فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ افراد جن کو یہ وائرس لگتا ہے، اُن پر کسی بھی قسم کا اثر ہی نہیں کرتا۔

بہت محدود تعداد میں لوگ اس وائرس سے شدید بیمار ہوتے ہیں۔ مغرب کے برعکس پاکستان میں اس وقت اگر ہمارے پاس کورونا کے مریضوں کا حقیقی نمبر نہیں بھی ہے اور اگر یہ اندازہ بھی لگا لیا جائے کہ یہاں پانچ ہزار نہیں بلکہ بیس یا تیس ہزار افراد اس وقت اس وبا سے متاثر ہیں تو بھی مرنے والوں کو ہم نہیں چھپا سکتے اور ابھی تک اس مرض سے کوئی چھیاسی افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ گویا پاکستان میں ابھی تک مرنے والوں کی جو شرح ہے وہ ایک فیصد سے بھی کافی کم ہے۔

اس وقت شدید بیماری کی صورت میں کورونا سے متاثر دو درجن سے بھی کم افراد وینٹی لیٹرز پر ہیں لیکن خوف اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ جیسے کورونا سے ہم سب مر جائیں گے۔

حالت یہ ہے کہ اسپتالوں میں دوسرے مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا، ڈاکٹرز کے پاس کوئی عام مریض چلا جائے تو وہ ڈر جاتے ہیں کہ کہیں کورونا کا مریض نہ ہو۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے درست کہا کہ دل، شوگر اور دوسرے امراض میں مبتلا مریض علاج کے لیے کہاں جائیں کیونکہ جہاں چیک کریں سب اسپتال بند مل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری اسپتالوں نے روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ہزاروں مریضوں کو دیکھنا بند کر دیا تھا اور اسپتالوں کے او پی ڈیز (OPDs) کو بند کر دیا گیا تھا۔ اب تو ڈاکٹروں اور کچھ پرائیویٹ اسپتالوں نے مریضوں کو آن لائن چیک کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک بات البتہ طے ہے کہ کورونا نے ابھی جلدی ہماری جان نہیں چھوڑنی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے علاج اور ویکسین کے حصول کے لیے پانچ چھ ماہ سے ڈیڑھ دو سال تک کا عرصہ لگ جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چند مہینوں تک اس وائرس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن یہ سب اندازے ہیں۔ ہوگا کیا، کسی کو معلوم نہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے کیس میں، جو الحمدللہ ابھی تک کوئی زیادہ تشویشناک نہیں، ہمیں چاہیے کہ نیو نارمل یعنی احتیاط کے ساتھ زندگی گزارنے کے طریقے کو اپنائیں اور لاک ڈائون کو ہر گزرتے دن کے ساتھ نرم کرتے جائیں۔

اچھا ہوا وزیراعظم صاحب نے تعمیراتی شعبہ کو انڈسٹری کا درجہ دے کر اسے 14اپریل کے بعد کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے لاکھوں لوگ کا روزگار بحال ہوگا اور کئی صنعتیں دوبارہ کام شروع کر دیں گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کیساتھ ساتھ ایسی دکانوں اور کاروباری یونٹس کو بھی کھلنے کی اجازت ملنی چاہیے جہاں احتیاط نسبتاً آسان ہے، مثال کے طور پر اگر تعمیراتی شعبوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے ٹائلز، بجلی وغیرہ کی دکانیں کھل سکتی ہیں تو پھر فریج، ٹی وی، فرنیچر، گھڑیوں کا کاروبار کرنے والوں اور جیولرز وغیرہ کو بھی کاروبار کی اجازت دینے کے بارے میں سوچا جانا چاہیے۔

جہاں تک ممکن ہو کاروبار کو اس شرط کے ساتھ کھولنے کی اجازت دیں کہ احتیاط کی جائے گی، دکان میں رش نہیں ہونے دیا جائے گا۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں خوب آگاہی پھیلائیں کہ جب گھروں سے نکلیں یا رش والی جگہوں پر جائیں تو ماسک پہن کر جائیں۔ ہر مارکیٹ کے داخلی دروازوں پر اسپرے کرنے والے گیٹ نصب کرنے کے لیے کاروباری طبقہ کو ہدایات جاری کی جائیں۔

مجھے ایک ڈیڑھ سالہ بچے کی ماں نے کہا کہ گرمیاں شروع ہو گئی ہیں اور اُس کے پاس بچے کے سائز کا گرمیوں کا کوئی لباس نہیں، کیا کرے کہ سب بازار بند ہیں۔ مارکیٹس اور شاپنگ پلازوں کے لیے بھی ایس او پیز بنائیں تاکہ احتیاط کے ساتھ وہ بھی اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکیں۔

ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ لوگوں کو گھروں میں مہینوں تک بٹھا کر کھانے پینے کی اشیا پہنچا سکیں۔ ہماری معیشت کے حال پہلے ہی بُرے ہیں جبکہ غربت جو پہلے ہی یہاں بہت تھی، اب تو اتنی بڑھ گئی ہے کہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ لوگ بیچارے کیسے گزارا کر رہے ہوں گے۔

حکومت نے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو بارہ بارہ ہزار روپے دینا شروع کیے ہیں لیکن ایک تو غریب اور ضرورت مند اس سے بہت زیادہ ہیں اور دوسرا بارہ ہزار سے غریب دو ماہ سے زیادہ کہاں گزارا کر سکتا ہے۔ اس لیے لاک ڈائون کے مسئلہ پر وزیراعظم کی بات سنیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔