Time 24 اپریل ، 2020
بلاگ

کورونا ۔ خود کلامی کا مہینہ

فوٹو: فائل

پرانا محاورہ ہے ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کورونا کے زمانے میں یہ کیوں یاد آیا، دراصل اکیسویں صدی کے آغاز میں جنرل مشرف نے پی ٹی وی کا زور توڑنے کیلئے تسبیح کے دانوں کی طرح بیسیوں چینل کھول دیے، یہ نہ سوچا گیا کہ اُن کی اہلیت ہے کہ نہیں۔ 

یہ بھی نہیں لحاظ کیا گیا کہ حسینہ معین ہے کہ در شہوار، یہ در شہوار کون ہیں، میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی نام لے لیں کہ اُن نئے چینلوں کے شروع ہوتے ہی، پڑھا لکھا اسکرپٹ، ایڈیٹر کی پوسٹ ختم کر دی گئی، بہرحال کمرشل کمپنیاں سامنے آگئیں، ہر چینل نے ہر روز کم از کم 4ڈرامے پیش کرنا شروع کئے، ادب، شاعری، فلسفہ اور نفسیات، آف موضوعات کو لغویات سمجھ کر ماؤف کر دیا گیا، اس طرح کلاسک اور نیم کلاسیکی گائیکی اور غزل کی خوبصورت پیش کاری کو فالتو سمجھ کر دروازے بند کر دیے۔ 

دروازے کھلے تو مزاح کے نام پر مراثی کی بھی حد درجہ گری ہوئی شکل ہر چینل سے پیش کی جانے لگی، اس دوڑ میں پی ٹی وی نے بھی آگے جانے کی کوشش کی، کسی کو پتا اور سمجھ نہ تھی کہ یہ دوڑ گڑھے میں گرنے کے انجام کو پہنچے گی۔ 

اللہ بھلا کرے (غلط استعمال کر رہی ہوں) کہ کورونا آگیا، اب اس ماحول میں دس، دس ڈراموں کی ریکارڈنگ یکدم رک گئی، اب رستہ پی ٹی وی کے پاس یہ نکلا کہ پرانے ڈرامے دہرانا شروع کئے اور لوگوں نے پھر پی ٹی وی لگانا شروع کردیا، دیکھا دیکھی دوسرے چینلوں کو ہوش آیا کہ ڈرامے تو کسی کام کے نہ تھے جو فلمیں بنائی تھیں وہ پیش کرکے، شاید اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے لگے ہیں، مگر ایک اور مصیبت ہے کہ سارے چینل والوں نے خود بخود یہ فرض کر لیا ہے کہ سیاست دانوں کے پروگرام کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا جائے۔ 

پی ٹی وی کو خاصیت یہ حاصل رہی کہ وہاں اچھا ہی نہیں بہت اچھا، حکومتی آوازوں کو صبح سے شام تک پیش کیا جائے، خیر یہ کوئی نئی بات نہیں، اپنے اپنے دانشوروں کو سامنے لایا گیا، یہ سلسلہ حکمرانوں کو پسند آیا، ہر زمانے نے اپنے زمانے کے ابوالفضل اور فیضی کو پیش کیا، یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے، وہ بھی زمانہ تھا کہ ایک صفحے پر مبنی اخبار صرف ایوب خان کے روبرو پیش کرنے کیلئے تیار کیا جاتا تھا، اب اس ایک صفحہ کے متبادل 35صحافتی مشیر مقرر کئے جانے لگے، منظر آپ کے سامنے ہے، اس میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ آپ بڑھتے قدم روک کر اس کی بات سننے کو ٹھہر جائیں، مگر یہ کورونا کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، آخر میں میڈیا ہو کہ اخبارات، علامہ اقبال ہی کام آتے ہیں۔

کورونا اور لاک ڈاؤن کے باعث ایک خوش خبری بھی ہے کہ چونکہ سڑکوں پر سلنسر پھٹے موٹر سائیکل اور بسیں، لامحدود گاڑیاں اور رکشے نہیں ہیں، اس لئے دنیا بھر میں فضا آلودہ نظر نہیں آرہی اور آسمان کی نیلاہٹ بھی شاید زندگی میں پہلی دفعہ دیکھ رہے ہیں۔ 

ایک اور منظر جس سے ساری دنیا بیزار ہو گئی ہے کہ گھر کے سارے افراد، ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں اور مسکراہٹ تو پہلے دن ہی کورونا بھیج کر رخصت ہو گئی مگر اس پورے مہینے میں سوچتی رہی، ابھی آئے گا ہمزاد، کبھی ہنسائے گا، کبھی رلائے گا اور کبھی میرے سامنے 4گھنٹے سے رکھی پلیٹ اٹھا کر لے جائے گا، گھر میں رہ کر سائے سے ملاقات نہیں ہوتی ہے، آئینہ دیکھنے کو جی نہیں کرتا، ایک دن چھٹی کا ہو تو بندہ منہ بھی نہ دھوئے مگر یہ تو پورا مہینہ ہونے کو آیا، آئینے پر دھول جم گئی ہے کہ صفائی والی ماسی کسی گھر میں بھی نہیں آرہی، خود ہم سب نے منع کیا ہے، یہ غریب لوگ کہیں کورونا لے کر نہ آجائیں۔ 

مگر یہ کورونا تو امیروں کی کوٹھیوں میں بہت پھیلا ہے، وہاں اسے دعوت بھی ملی اور عداوت بھی، یہ کورونا بھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے عاشقوں کی طرح ہے، وہ بھی تو عشق کے نام پر چپک جاتے تھے، کورونا کی نسل کے بارے میں ڈاکٹر دانی زندہ ہوتے یا آئن اسٹائن بتا سکتے تھے ہم بھی کھلے بےوقوف ہیں، ٹرمپ سے اس کے بارے میں معلومات کی توقع رکھ رہے ہیں۔

اب ہولانے والی خبریں، دبئی سے 30ہزار مزدور واپس، سعودی عرب میں کرفیو، کوئی نکل ہی نہیں سکتا، ترکی سے سوئٹزر لینڈ، اٹلی، انگلینڈ اور امریکا کے علاوہ جنوبی افریقہ سے بھی لوگ واپس پاکستان آرہے ہیں، پہلے ہی 8کروڑ ویلے بیٹھے ہیں، ان کو کام کیا اور کہاں ملےگا، روٹی کہاں سے کھائیں گے؟

چلو اب ذرا دلچسپ باتوں کی جانب بھی لوگوں کو متوجہ کیا جائے، ہمارے بزرگ یاور عباس جو بی بی سی لندن کے روح رواں تھے، نے 101سال کی عمر میں نور ظہیر جو کہ 67سال کی ہیں، سے کورونا کے زمانے میں گھر میں ہی نکاح پڑھوا کر زندگی کا نیا منظر بنانا شروع کر دیا ہے، بالکل اسی طرح ہماری دوست ثمینہ احمد نے سرمد صہبائی کے بھائی منظر صہبائی سے کورونا ہی کے دنوں میں شادی کر لی ہے، دونوں نے 70سال کی زندگی کی بہاریں دیکھی ہوئی ہیں، 78سال کی عمر میں انجمن نے بڑے چونچلوں کے ساتھ ایک نئی شادی کر لی ہے، یہ ہے آئیسولیشن کا نتیجہ۔

 1965اور 1971کی طرح جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تھا تو سال بھر بعد بچوں کی بےتحاشا پیدائش ہوئی تھی، اب دیکھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کتنے گھرانوں میں اضافہ ہوگا، روزگار کروڑوں کا نہیں ہوگا اور آبادی کم ہوکر بھی بڑھ جائے گی، پرانے ڈرامے دیکھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم جیسے بڈھے دیوار کے پار دیکھنے کی شاید قوت حاصل کرلیں، لوگ خوش فہم ہیں کہ دنیا اس وبا کے نتیجے میں بالکل بدل جائے گی، جی ہاں! جب بھوکے مریں گے، بیکار ہوں گے تو پھر دہشت اور وحشت حکومت کریں گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔